ایران کیساتھ جوہری معاہدہ طے ہونے کے قریب پہنچ گیا، صدر ٹرمپ کا دعویٰ

0

حوثی ایران کی پیداوار ہیں، امریکی صدر
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے امریکا کے ساتھ کسی حد تک جوہری معاہدے کی شرائط پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ان خیالات کا اظہار امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ کے اپنے دورے کے دوران قطر کے دارالحکومت دوحہ میں میڈیا سے گفتگو میں کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ مذاکرات انتہائی سنجیدہ اور طویل مدتی امن کے لیے اہم پیشرفت ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ میرے خیال میں ہم ایران کے ساتھ کسی معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور یہ بغیر کسی فوجی کارروائی کے ہوا ہے۔

اس سے قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر نے امریکی میڈیا کو بتایا تھا کہ اگر امریکا ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کر دے تو ایران بھی اپنے جوہری پروگرام میں بڑی حد تک نرمی کے لیے تیار ہے۔

تاہم امریکا کا مؤقف ہے کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی مکمل طور پر ترک کرنی چاہیے تاکہ وہ جوہری ہتھیار تیار نہ کر سکے۔

جس کے جواب میں ایران کا ہمیشہ یہ اصرار رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

یاد رہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام پر حالیہ مذاکرات اتوار کے روز اختتام پذیر ہوگئے۔

امریکی مشرق وسطیٰ کے نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف نے مذاکرات کو حوصلہ افزا جب کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے “مشکل مگر سودمند” قرار دیا تھا۔

امریکی حکام کے مطابق حالیہ مذاکرات تین گھنٹے سے زائد جاری رہے اور فریقین نے تکنیکی پہلوؤں پر مزید کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ایک سینئر امریکی اہلکار نے کہا کہ ہم آج کے نتائج سے حوصلہ افزائی حاصل کر رہے ہیں اور آئندہ ملاقات کے منتظر رہیں گے۔
انھوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر نئے مذاکرات ناکام ہوئے تو ایران کے جوہری تنصیبات پر فوجی کارروائی کر سکتے ہیں۔

تاہم حالیہ پیشرفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کسی نئے معاہدے کی جانب بڑھ رہے ہیں جو خطے میں کشیدگی کو کم کر سکتا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ 2018 میں اپنے پہلے دورِ اقتدار میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگئے تھے۔

جنھیں سابق صدر جوبائیڈن کے دور میں بحال کرنے کی کوششیں کی گئیں اور مذاکرات کے کئی دور بے نتیجہ ثابت ہوئے تھے۔

امریکا اور ایران کے درمیان یہ جوہری مذکرات جوبائیڈن کے بعد ٹرمپ کے دوسری بار صدر بننے کے بعد بھی جاری ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں