اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ میں سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں قائم ڈویژن بینچ کی کارروائی کے دوران اسٹینو کی عدم دستیابی کے باعث غیر معمولی صورت حال پیدا ہو گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئرترین جج جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بینچ نے کیسز کی سماعت کا آغاز کیا تو عدالت میں اسٹینو دستیاب نہیں تھا، جج کی طرف سے سماعت کے بعد آرڈر ڈکٹیٹ کرانے پر اسٹینو اسے شارٹ ہینڈ میں نوٹ کرتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسٹینو کی قلت ہو گئی ہے، 5،6 جج اور آجائیں تو شاید حالات ٹھیک ہو جائیں۔
سماعت کے دوران اسٹینو کی کرسی خالی رہی اور جسٹس محسن اختر کیانی خود ہی آرڈرز لکھتے رہے، بعد میں جسٹس ثمن رفعت امتیاز کو فائلیں دینے کے لیے عدالتی اہلکار کو اسٹینو کی کرسی پر بٹھایا گیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اللہ خیر ہی کرے، آج ہمارے پاس اسٹینو موجود نہیں، سول جج کی طرح میں خود آرڈر لکھوں گا جبکہ رجسٹرار آفس نے بتایا کہ عدالت کو عارضی طور پر اسٹینو دیا گیا تھا جو شاید کچھ دیر کے لیے دستیاب نہیں تھا۔
ڈویژن بینچ کی سماعت کے دوران جسٹس ثمن رفعت امتیاز کو کیس کی فائلز دینے والا بھی موجود نہیں تھا، انہیں فائلیں دینے کے لیے عدالتی اہلکار کو بعد میں اسٹینو کی کرسی پر بٹھایا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ جسٹس ثمن رفعت امتیاز کے پی ایس اور اسٹینو تنویر احمد حج کی ادائیگی کے لیے چھٹیوں پر ہیں، ایک عدالت کا اسٹینو دستیاب تھا مگر کام کے بوجھ کے باعث ججوں نے خود ڈویژن بینچ میں اس سے کام نہیں لیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اس معاملے پر اپنا مؤقف دیا کہ جسٹس ثمن رفعت امتیاز کے پاس دو اسٹینو، ایک پرائیویٹ سیکریٹری ہے، تین میں سے ایک پرائیویٹ سیکریٹری حج پر چلے گئے تھے اور دوسری کورٹ سے ایک اسٹینو لے کر جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی عدالت کو دیا گیا، جس کورٹ سے وہ اسٹینو آیا تھا شاید اسے واپس بلا لیا گیا تھا۔
مزید بتایا گیا کہ ایک بجے بتایا گیا تو ڈھائی تین بجے ایک اور اسٹینو ان کو دے دیا تھا، اس دوران کچھ دیر کے لیے تعطل آیا جب کورٹ کو اسٹینو دستیاب نہیں تھا۔
رجسٹرار آفس کا کہنا ہے کہ عدالتوں کی تعداد بڑھی ہے، جو آسامیاں خالی تھیں ان پر ابھی بھرتیاں نہیں کر سکے، رولز فریم ہو رہے تھے اور ہمارے پاس اسٹینو کی کمی ہے۔