نیویارک: اگرچہ بہت سے لوگ غزہ جنگ سے دور ہیں تاہم اس کے باوجود وہ ٹی وی، انٹرنیٹ، اخبار اور سوشل میڈیا کے ذریعے تصادم کی ان گنت تصاویر، خبریں اور دنیا بھر میں ہورہے احتجاجات سے واقف ہیں اور یہ واقفیت ان کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن نے ایک بیان جاری کیا جس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ پرتشدد اور تکلیف دہ خبروں سے نمائش ہماری ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ نفسیاتی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ خوف، اضطراب اور تکلیف دہ تناؤ صحت اور تندرستی پر طویل مدتی اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ اثرات دنیا بھر کے وہ لوگ بھی محسوس کر رہے ہیں جن کے اہل خانہ اور دوست جنگ زدہ خطے میں موجود ہیں اور وہ لوگ بھی جو دنیا کے کسی کونے میں اس تصادم کو لے کر فکرمند ہیں۔
نیو یارک اسپتال اور ویل کارنیل میڈیکل کالج میں نفسیات کی کلینیکل ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر گیل سالٹز نے نے بتایا کہ جنگوں کی تصاویر اور خبروں کے ردعمل کے طور پر ہمارا اعصابی نظام کا ہمدرد پہلو متحرک ہو جاتا ہے اور یہ ایک ہی چیز باور کراتا ہے اور وہ ہے ‘خطرہ‘ جسے محسوس کرکے آپ بے چین اور پریشان ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ تصدیق شدہ بات ہے کہ اگر آپ لمبے عرصے تک پریشان رہیں تو آپ میں اداسی کا عنصر بڑھنے لگتا ہے جو بالآخر ڈپریشن پر منتج ہوجاتا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
1) سب سے پہلے اور اہم کام خبروں کی مقدار اور سوشل میڈیا پر اپنے وقت کو محدود کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے اردگرد ہونے والے واقعات سے خود کو ناآشنا رکھیں بلکہ سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کے ان مقامات پر جانے سے گریز کریں جہاں کوئی وارننگ نہ ہو اور صرف پریشان کن تصاویر اور خبروں کا سلسلہ ہو۔
2) بچوں کو ان کی عمر کے لحاظ سے یہ سمجھانا بھی بہت ضروری ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ اپنے بچوں سے بات کریں اور حالات سے متعلق ان کے پوچھے گئے سوالات کا جواب دیں کیونکہ آپ کو نہیں پتہ جو ان کے ذہن میں مخصوص باتوں کو لے کر رائے بن رہی ہے، وہ حقیقت سے بھی زیادہ خوفناک اور بدتر ہو۔
3) ذہنی تناؤ کی علامات کیا کیا ہیں، ان کے بارے میں آگاہ ہونا بہت ضروری ہے تاکہ اس سے جلد نمٹا جاسکے۔ تمام نفسیاتی حالتیں آغاز میں عمومی احساسات ہی لگتی ہیں لیکن آگے چل کر خطرناک صورت اختیار کرسکتی ہیں۔ جب ڈپریشن اور تناؤ محسوس کریں تو پیشہ ور ماہر افراد سے رجوع کریں اور سماجی تعلقات اور اجتماعات میں مشغول ہوں تاکہ تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی، ذہنی سکون حاصل ہو۔