رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں بشار الاسد باغیوں کے دارالحکومت میں داخل ہونے پر خاموشی سے روس روانہ ہوگئے تھے اور اب اس فرار کی نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق شام پر 50 سے زائد عرصے تک راج کرنے والے اسد خاندان کے اقتدار کا سورج بالآخر دسمبر کی 7 تاریخ کو ڈوب گیا تھا۔
سنہ 2000 میں حافظ الاسد کے انتقال کے بعد ملکی صدر بننے والے ان کے بیٹے بشار الاسد باغی گروہوں کے دمشق میں داخل ہونے پر اپنے اہل خانہ سمیت خصوصی طیارے میں روس چلے گئے تھے۔
فرانس کے اخبار “لوفیگارو” نے بشار حکومت کے بعض قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ صدر اپنے اہل خانہ سمیت صدارتی محل سے ایک زیر زمین سرنگ کے ذریعے المزہ فوجی ہوائی اڈے پہنچے تھے۔
سابق حکومت کے مصدقہ ذرائع نے فرانسیسی اخبار کو بتایا کہ یہ زیر زمین سرنگ ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بشار الاسد کو درپیش خطرات کے پیش نظر تیار کی گئی تھی۔
اخبار نے دعویٰ کیا کہ سرنگ کے ذریعے المزہ فوجی اڈے پہنچنے کے بعد بشار الاسد نے اہل خانہ کے ہمراہ حمیمیم میں روسی فوجی اڈے کا رخ کیا۔
فرانسیسی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بشار الاسد کا یہ فرار عجلت میں بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے کیا گیا کیوں کہ صدر کو آخری لمحے تک اپنی شکست کا یقین نہیں آ رہا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بشار الااسد کو باغیوں کے دمشق میں پیش قدمی کا علم ہو چکا تھا لیکن انھوں اس سے اپنے خاندان اور حکومت کے سینیئر ذمے داران کو بھی بے خبر رکھا۔
اخبار کا دعویٰ ہے کہ شامی صدر نے حکومت گرنے اور باغیوں کے دمشق پر قبضے سے اپنے بھائی ماہر الاسد کو بھی بے خبر رکھا۔
یاد رہے کہ بشار الاسد کے بھائی ماہر الاسد شامی فوج کے فورتھ ڈویژن کے سربراہ تھے اور وہ خوف کی علامت سمجھے جاتے تھے۔
بعد ازاں ماہر الاسد بھی ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے روسی اڈے پر کافی تاخیر سے پہنچے اور پھر وہاں سے روس فرار ہوگئے۔
باغیوں کی کامیابیاں دیکھ کر بشار الاسد نے آخری کوشش کے طور پر روس سے مدد بھی مانگی تھی لیکن روس نے یوکرین جنگ میں مصروفیت کے باعث مزید نفری بھیجنے سے معذرت کرلی تھی۔
یاد رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے روس اور ایران کے سفارت کاروں کے ایک اجلاس میں باور کرایا گیا تھا کہ اب شام سے انخلا کا وقت آ گیا ہے۔