اسلام آباد:سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے کے 5 ماہ بعد اضافی نوٹ جاری کردیا ہے۔
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جسٹس منصور علی شاہ کا 6 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے اور اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل سیاسی ٹرائل کی کلاسیک مثال ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کیس میں تفتیش کی منظوری غیر قانونی طور پر دی گئی، سیاسی ٹرائل میں من پسند نتائج کے لیےغیر شفاف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی ٹرائل میں عموماً سابق اتحادیوں کے ہی بیانات لے کر گواہ بنایا جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ بھٹو نے خود کہا تھا آئین کی چھتری تلے ہی عدلیہ آزاد رہ سکتی ہے اور کہا تھا صحرا میں پھول نہیں کھل سکتے۔
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کا تفصیلی فیصلہ 5 جولائی 2024 کو جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آمرانہ دور میں ججوں کو یاد رکھنا چاہیے ان کی اصل طاقت عہدے پر فائز رہنا نہیں آزادی کو قائم رکھنا ہے، جسٹس دوراب پٹیل نے بھٹو کیس میں جرأت مندی سے اختلاف کیا۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا کہ دوراب پٹیل نے ضیا کے جاری کردہ عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں کہا کہ سمجھوتہ کر لینے کی میراث چھوڑنے کے بجائے عہدہ کھودینا ایک چھوٹی سی قربانی ہے، جج کی بہادری کا اندازہ بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے، مداخلت کے خلاف ثابت قدم رہنے سے لگایا جا سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ آمرانہ مداخلتوں کا مقابلہ کرنے میں تاخیر قانون کی حکمرانی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے، دراندازیوں کی فوری مزاحمت اور اصلاح کی جانی چاہیے اور عدلیہ کا کردار انصاف کا دفاع کرنا ہے۔