0

سیلانی سینٹر میں تھیلیسیمیا کے 385 مریضوں پر تحقیق، 73 مریضوں کو خون لگانے سے نجات مل گئی

کراچی:سیلانی سینٹر میں تھیلیسیمیا سے متاثرہ 385 مریضوں پر تحقیق کی گئی جن میں سے 216 مریضوں پر کامیاب تجربہ ہونے کے بعد 73 مریضوں کو خون چڑھانے سے نجات مل گئی۔

ملک بھر سے آئے تھیلیسیمیا کے مریض بغیر بون میروٹرانسپلانٹ کے صحت یاب ہونا شروع ہورہے ہیں تھیلیسیمیا اب مستحق خاندانوں کے لیے بھی قابل علاج مرض بن گیا ہے، مریضوں کی برقت تشخیص، معیاری ادویات کے ذریعے باقاعدگی سے علاج سے بون میروٹرانسپلانٹ کے بغیر صحت یاب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

گلشنِ اقبال میں قائم سیلانی تھیلسیمیا اینڈ بلڈ بینک سینٹر میں پریس بریفنگ کے دوران سیلانی کے بانی اور چیئرمین مولانا محمد بشیر فاروق قادری نے خوشخبری دی کہ اس سینٹر کے ذریعے بڑے کام کیے ہیں، یہ ارادہ 2017ء میں قائم ہوا ہے جہاں ہر بیماری کا علاج موجود ہے، پاکستان کے تھیلیسیمیا سے متاثر 385 میں سے 317 بچوں پر کام کیا جن میں سے 216 کا رزلٹ اچھا آیا جبکہ 73 مریضوں کو دو سالوں سے خون نہیں چڑھا صحت مند زندگی گزارنے لگے ہیں جن کا علاج ادویات کے ذریعے جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیا بھر میں سمجھا جاتا ہے تھیلیسیمیا قابلِ علاج مرض نہیں ہے لیکن ہم نے ثابت کردیا ہر مرض کا علاج ہے اگر بروقت تشخیص کی جائے۔

سینٹر کے سربراہ اقبال قاسمانی نے کہا مشکلات آتی ہیں کبھی کبھی خون نہیں ملتا بالآخر کام ہوجاتا ہے یہاں سب مستحق آتے ہیں، 73 بچے صحت یاب ہوگئے ہیں، جہاں ان کی رہائش ہے وہاں پر وبائی امراض کا راج ہے جبکہ پانی کی بھی قلت ہوتی ہے مگر اس کے باوجود یہاں جب بھی آتے ہیں 38 افراد پر مشتمل اسٹاف مریضوں کا خیال رکھتا ہے انہیں نہ صرف راشن بلکہ آنے جانے کا کرایہ بھی دیا جاتا ہے۔

پروجیکٹ کوآرڈینیٹر غلام سرور نے کہا کہ یہ مرض والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے ہم نے بہت کوشش کی مختلف ادویات پر تجربہ کیا اور طویل تحقیق کے بعد نتیجہ ملنا شروع ہوگیا، 385 متاثرہ بچوں میں 61 بچوں پر کوئی اثر نہیں ہوا جبکہ 35 بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوگئے، ستمبر 2022ء سے 216 بچوں پر تجربہ کامیاب رہا جن میں سے دو سال میں 73 بچوں کو اب تک خون نہیں لگا اور صحت مند زندگی گزار رہے ہیں تاحال باڈی مکمل طور پر فنکشنل ہے گروتھ بھی ہورہی ہے جبکہ ہیپاٹائٹس سے بھی ان کا بچاؤ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلڈ نہ لگنے کا فائدہ یہ ہے کہ بار بار آئرن ڈپوزٹ ہونے سے فنکشنز ناکارہ ہوجاتے ہیں بلڈ ٹرانسفیوژن کے پہلے 22 سو یونٹس درکار ہوتے تھے، ادویات کے بعد 16 سو جبکہ اب صرف 4 سو یونٹس درکار ہوتے ہیں، دو سال کے بعد مریض آتے ہیں مریضوں کا علاج اب ادویات کے ذریعے ہی کیا جارہا ہے۔

سینٹر میں صحت یاب ہونے والے بچوں اور ان کے والدین کی خوشی اور مسکراہٹ دیدنی تھی۔ سیلانی سینٹر میں 725 بچے رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 385 کو جدید ادوایات دینا شروع کی گئیں تھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں