اسلام آباد(24 اکتوبر 2024ء ) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصورعلی شاہ نے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کو ایک اور خط لکھ دیا، پہلے بھی لکھا تھا ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ بیٹھنے تک خصوصی بنچز کا حصہ نہیں بنوں گا
جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے نیا خط 23 اکتوبر کو لکھا، خط چیف جسٹس کو بطور سربراہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی لکھا گیا، جس میں انہوں نے خصوص بنچ میں بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے بھی لکھا تھا ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ بیٹھنے تک خصوصی بنچز کا حصہ نہیں بنوں گا‘، خط میں سر تھامس مورے کا قول بھی نقل کیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خط مین تحریر کیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کے تحت تشکیل کردہ کمیٹی کے سیکریٹری کو بھیجے گئے 23 ستمبر 2024ء کے میرے خط میں درج وجوہات کی بناء پر (جس کے مندرجات میری درخواست کے باوجود 19 تاریخ کے کمیٹی اجلاس کے منٹس میں درج نہیں کیے گئے تھے) مجھے افسوس ہے کہ میں خصوصی بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا۔
میں یہ بھی واضح کرتا ہوں کہ جب تک فل کورٹ بنچ 2024ء کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی آرڈیننس نمبر VIII کے نفاذ کے ساتھ ساتھ اس میں کی گئی ترامیم کی آئینی توثیق کا تعین نہیں کرتا، یا عدالت کے جج ان ترامیم پر مکمل طور پر عمل کرنے کا فیصلہ کرتے، عدالتی میٹنگ میں اس کی آئینی حیثیت پر زیر التوا فیصلہ نہیں کیا جاتا، یا چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل سابقہ کمیٹی بحال نہ ہو جائے، میں نئی کمیٹی کی طرف سے بنائے گئے خصوصی بنچوں میں حصہ نہیں لوں گا اور صرف باقاعدہ بنچوں میں ہی شرکت کروں گا جو کہ ان کے مقدمات کی سماعت کرے گا۔
انہوں نے لکھا کہ مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر میں خود کو اس میں تشکیل دیئے گئے بینچ سے الگ کرتا ہوں، آخر میں مجھے “A Man for all Seasons” کا ایک اقتباس یاد آرہا ہے، جہاں سر تھامس مور کہتے ہیں “میں سمجھتا ہوں کہ جب سٹیٹس مین اپنے عوامی فرائض کی خاطر اپنے ذاتی ضمیر کو ترک کر دیتے ہیں، تو وہ اپنے ملک کو افراتفری کی طرف لے جاتے ہیں”، ہم اقتدار میں رہتے ہوئے اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے لوگ ہمارے اعمال کو دیکھ رہے ہیں اور تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔