0

عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ لا کر وکلاء سے ملاقات کرانے کا حکم

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان سے ان کے وکلاء کی ملاقات کرانے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالتی حکم کے باوجود بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے جیل میں ملاقات کی اجازت نہ دینے پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سماعت کی، عدالتی حکم پر جیل سپرنٹینڈنٹ غفور انجم اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔

دوران سماعت جسٹس سردار اسحاق خان نے اسٹیٹ کونسل اور جیل سپرنٹینڈنٹ پر برہمی کا اظہار کیا، جیل ملاقات پر پابندی کے پنجاب حکومت کا نوٹی فیکیشن دیکھ کر بھی عدالت برہم ہوئی، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیئے کہ حکومت پنجاب نے توہین عدالت کی، اگر روکا ہے تو نوٹی فکیشن کہاں ہے؟، یہ تو 21 سے 25 تک کا نوٹی فکیشن ہے، پہلے والا بھی دکھائیں، وزارت داخلہ کی رپورٹ دیں اور بتائیں کہ کیا سکیورٹی ٹھریٹس ہیں۔

جج اسلام آباد ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ یہ نوٹی فکیشن میرے احکامات کی خلاف ورزی ہے، وکلاء نہیں ہیں، وکلاء کو کیوں نہیں ملنے دیاگیا؟ حکومت ایک نوٹی فکیشن جاری کرکے ایک جگہ کو سیل کرکے انصاف کی فراہمی کو روک سکتی ہے کیا؟ اے جی صاحب یہ توہین ہے، وزارت داخلہ کو وضاحت دینا ہوگی کہ میرے احکامات سے کیسے لاعلم رہے، شیر آ رہا شیر آرہا ہے اتنے لیٹرز جاری کرتے ہیں، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اگر یہ جینوئن نہ ہوں؟، جنہوں نے یہ لیٹر لکھے ہیں ان سے ان کیمرہ پوچھوں گا، قرآن پر ہاتھ رکھا کر پوچھوں گا وہ بیان حلفی دیں گے کہ کیا واقعی یہ پوزیشن تھی؟۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو آج تین بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں لا کر وکلاء سے ملاقات کا حکم دیا، جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیئے کہ مجھے پتہ ہے آپ میرے حکم پر عمل درآمد نہیں کریں گے، بانی پی ٹی آئی کو آپ عدالت میں پیش کریں گے تو یہ عدالت عالیہ ہو گی، آپ سکیورٹی کے انتظامات کریں اور عمران خان کو عدالت میں لائیں، اگر نہیں لا سکے تو کل آپ عدالت کو بتائیں گے کہ کیوں پیش نہیں کر سکے؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عدالتیں اتنی ہی بےبس ہیں اور انکے آرڈرز کاغذ کا ٹکڑا ہی رہ گئے ہیں؟ سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل خود بغیر کسی واقعے کے جس طرح جیل سے ہائیکورٹ آ گئے ہیں، عمران خان کو بھی عدالت میں پیش کر سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں