0

بچوں کی صحت بخش غذاؤں سے رغبت

بچپن میں ہم جب اسکول جانا شروع ہوئے تو ہمیں یاد ہے کہ جب بریک کے لیے ہمیں لنچ ملا تو ہمارا پہلا سوال یہی تھا کہ اس کی ضرورت کیوں؟ کیوں کہ گھر میں تو کبھی ہم اس وقت کچھ نہیں کھاتے، تو اسکول میں کیوں؟ ہمیں یاد نہیں تب ہمیں اس بات کا کیا جواب ملا، لیکن یہ ہوا کہ اسکول کے دنوں میں پھر لنچ کے وقت کچھ نہ کچھ کھانے کی عادت پڑ گئی تو اس وقت پھر بھوک لگنے لگی۔

ہوتا یہی ہے کہ گھروں میں بچوں کی اسی طرح پرورش کی جاتی ہے اور غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے، تاکہ وہ بڑھنے کی عمر میں غذا سے محروم نہ رہیں۔ بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ گھروں میں اپنے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھتے، ایسے میں انھیں اسکول کے لیے ایسی کیا چیز دی جائے جو وہ شوق سے کھالیں۔ بہت سے بچے ماؤں کی دوری کا فائدہ اٹھا کر اسکول میں اپنا لنچ دوستوں کے حوالے کر دیتے ہیں، کیوں کہ انھیں کھانے پینے سے زیادہ رغبت نہیں ہوتی، یا دیا گیا لنچ انھیں پسند نہیں ہوتا۔

آج کل کے بچے تو بازار کی چیزیں کھاتے ہیں، جب کہ مائیں صحت بخش غذائیت سے بھرپور غذائیں تیار کرکے دیتی ہیں۔ اس لیے ماؤں کو چاہیے کہ وہ کوئی ایسی ترکیب اختیار کریں کہ بچے شوق سے کھائیں۔ مثلاً الگ سے کوئی ایک پھل دینے کے بہ جائے اگر دو تین پھلوں کی سلاد یا چاٹ وغیرہ بنا کر دے دی جائے، تو دیکھا گیا ہے کہ بچے اسے بے حد شوق سے کھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کی رغبت پیدا کرنے کے لیے مختلف کہانیوں اور کارٹون کے کردار معاون ہوتے ہیں کہ جیسے انھیں بتایا جائے کہ اگر آپ فلاں چیز کھائیں گے تو فلاں جیسے ہو جائیں گے، اس طرح وہ خود سے شوق پیدا کرلیتے ہیں اور پھر فرمائشیں کرکے ایسی چیزیں بنواتے اور کھاتے ہیں۔

آپ کے بچے اگر صحت بخش سینڈوچ وغیرہ کھانا پسند نہیں کرتے، تو اس کے لیے سب سے پہلے تو کوشش یہ کیجیے کہ اس کا ذائقہ بہتر بنائیں، اس کے علاوہ اس کا حجم کم رکھیں۔ ایک سینڈوچ کے چار ٹکڑے کر دیں یا اسے کسی اور خوب صورت انداز سے کاٹیں۔ اس حوالے سے مختلف ڈیزائن کے کٹر بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کی پسند کو مدنظر رکھ کر سینڈوچ ، کباب، نگٹس وغیرہ اگر ان کی پسند کے ڈیزائن میں کاٹ کر لنچ بکس میں دیں تو ان کی کھانے میں رغبت بڑھ سکتی ہے۔ برگر، بن کباب یا سینڈوچ وغیرہ میں چٹنی، کیچپ یا مایونیز بہت کم مقدار میں استعمال کرنی چاہیے۔

آج کل کے ماحول سے متاثر ہو کر بہت سے بچے فرنچ فرائز، سموسے، نگٹس وغیرہ کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں، تو اس کے لیے آپ انھیں گھر میں بھی اہتمام کرسکتی ہیں۔ اس سے کم سے کم یہ اجزا صاف ستھرے اور اچھے طریقے سے انھیں مل جائیں گی۔ ایسے ہی وہ اگر اسکول کے لنچ یا شام کی چیز کے لیے مختلف بسکٹ یا چپس وغیرہ لے جانے کی خواہش ظاہر کریں، تو اسے پھر کسی نہ کسی بات سے مشروط کر دیجیے جیسا کہ ’کہ ٹھیک ہے ایک آپ کی پسند کی چیز اور ایک گھر کا بنا ہوا سینڈوچ یا پھل اور اگر آپ یہ پھل یا سینڈوچ کھائیں گے، تو پھر آپ اپنی پسند کی چیز بھی کھا سکتے ہیں۔‘ اس طریقے سے انھیں صحت بخش اجزا مل جاتے ہیں۔

بچے جیب خرچ بے حد پسند کرتے ہیں۔ اس سے انھیں آزادی کا احساس ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی اب اپنی مرضی سے کوئی بھی چیز خرید سکتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی غلط بات بھی نہیں ہے۔ اگر وہ اپنے اسکول کی کینٹین سے من چاہی چیزیں خرید کر کھانا چاہیں تو پہلے آپ کینٹین میں فروخت کی جانے والی کھانے پینے کی اشیا کے معیار کا جائزہ لے لیجیے اور پھر اس سے مطمئن ہوں، تو انھیں ہدایات کے ساتھ ہفتے میں ایک دو دفعہ جیب خرچ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ساتھ میں ان سے ضرور پوچھیں کہ انھوں نے خرید کر کیا کھایا اور کیا نہیں۔ اس سے انھیں جواب دہی کا احساس ہوگا اور آپ کو بھی خبر رہے گی کہ بچہ پیسے ٹھیک جگہ خرچ کر رہا ہے یا نہیں۔

اس کے علاوہ انھیں اپنا جیب خرچ جمع کرنے کی بھی ترغیب دیں۔ اس کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے کہ ان کو جو چیزیں آپ لے کر دیتے ہیں، انھیں کہیں کہ وہ اپنے پیسے جمع کر کے اسے خریدیں۔ چیز اگر مہنگی ہو تو آپ انھیں مزید کچھ پیسے دینے کی پیش کش کر سکتے ہیں، اس طرح وہ کفایت شعاری پر مائل ہوں گے۔

بچوں کو اسکول کے لیے دیے جانے والے لنچ باکس میں ان کو صحت بخش غذا کے متعلق خصوصی ترغیب دی جائے، تو بچے بے حد خوشی سے کھاتے ہیں، مثلاً فلاں پھل یا دودھ یا سبزی کھانے سے آپ کا قد بڑھے گا یا آپ کے ’مسلز‘ اچھے بنیں گے یا لڑکیوں کویہ ترغیب دی جا سکتی ہے کہ آپ کی جِلد صحت مند ہوگی یا بال لمبے ہوں گے وغیرہ۔ اس طرح بچے بہ خوشی کھائیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی اسکول سے گھر واپسی پر ماؤں کو سب سے زیادہ پریشانی بچوں کا حد سے زیادہ میلا یونیفارم دیکھ کر بھی ہوتی ہے۔ اسکول میں کھیل کود کے دوران بچوں کے یونیفارم گندے ہونے کے ساتھ اس پر کئی طرح کے داغ دھبے بھی لگ جاتے ہیں۔ جس پر مائیں بچوں سے بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا یا ان کے کھیل کود پر پابندی لگانا بے حد ضروری ہے جب کہ بچوں کے یونیفارم کو صاف ستھرا اور بالکل نیا جیسا کرنے کے لیے یونیفارم دھوتے وقت واشنگ پاؤڈر کے ساتھ بورک پاؤڈر شامل کر دیا جائے۔ بورک پاؤڈر کا تناسب واشنگ پاؤڈر سے دگنا ہونا چاہیے، یعنی ایک حصہ واشنگ پاؤڈر اور دو حصے بورک پوڈر ملاکر یونیفارم کو دھویا جائے، تو یونیفارم پر سے تمام داغ دھبے بھی صاف ہو جائیں گے اور ایسا نیا پن محسوس ہوگا، جیسے اس کو ڈرائی کلین کروایا گیا ہو۔

بہت سے تعلیمی اداروں میں تعلیمی سال کے آغاز میں ہی سہ ماہی امتحانات کی بابت بھی بتا دیا جاتا ہے اور ماؤں کو بچے کے اچھے گریڈ کی فکر پریشان کیے رہتی ہیں۔ بیش تر مائیں بچوں کو ٹیوشن سینٹر بھیج دیتی ہیں یا ٹیوٹر کا انتظام کیا جاتا ہے۔ مسلسل آدھے گھنٹے سے زاید جاری رہنے والی تدریس بچوں کو اکتاہٹ کا شکار کرنے لگتی ہے۔ اس لیے انہیں دمیان میں کچھ دیر کے لیے وقفہ دینا ضروری ہے۔

اس دوران بچوں کی دل چسپی کی کوئی ہلکی پھلکی گفتگو کی جا سکتی ہے۔ اس سے وہ یک سانیت کاشکار نہیں ہوں گے۔

بچے کی بہترین شخصیت سازی میں ماں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ دنیا کی عظیم ترین شخصیات کے پیچھے ان کی ماؤں کی بہترین تربیت نمایاں نظر آتی ہے۔ ماں سے بہترین ٹیوٹر کوئی نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ان بچوں کے امتحانات میں نمایاں کام یابی حاصل کرتے ہیں، جن کے والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تدریس میں خصوصی دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ضمن میں بچوں کی غذا میں بھی خصوصی طور پر ایسی غذائیں شامل کی جائیں، جو ان کی یادداشت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں۔ مثلاً بادام، اخروٹ، آلو، دودھ دہی وغیرہ اس کے علاوہ رات کے وقت بچوں کے سر میں تیل کا مساج کرنا بھی بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ انگلیوں کی پوروں سے ہلکے ہلکے دائرے کی شکل میں تیل کا مساج کرنے سے خون کی گردش بہتر ہوتی ہے۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں