0

مارشل لا کیوں لگایا؛ جنوبی کوریا کی عدالت نے صدر کے وارنٹِ گرفتاری جاری کر دیے

وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد جنوبی کوریا میں پہلی بار کسی حاضر صدر کو گرفتار کیے جانے کا امکان ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنوبی کوریا کی عدالت نے مواخذے کا سامنا کرنے والے صدر یون سک یول کے وارنٹِ گرفتاری اور تلاشی کا اجازت نامہ بھی جاری کر دیا۔

سیول ویسٹرن ڈسٹرکٹ کورٹ نے وارنٹِ گرفتاری جوائنٹ انویسٹی گیشن کی درخواست پر جاری کی جو بغاوت اور طاقت کے غلط استعمال پر صدر کیخلاف تحقیقات کر رہی ہے۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ جنوی کوریا کے صدر کو کب گرفتار کیا جائے گا تاہم اگر ایسا ہوا تو جنوبی کوریا کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا۔

یاد رہے کہ صدر یون سک یول کو حاصل استثنیٰ کے باعث تفتیش کاروں کو صدارتی دفتر کے احاطے اور سرکاری رہائش گاہ پر متعدد سرچ وارنٹ پر عمل درآمد کرنے سے روک دیا تھا۔

ادھر جنوبی کوریائی میڈیا نے قیاس کیا ہے کہ صدر کو فوری طور پر گرفتار کیے جانے کا امکان نہیں کیونکہ حکام کو پہلے صدارتی سیکیورٹی سروس (PSS) کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔

دوسری جانب صدارتی سیکورٹی سروس نے عدالتی فیصلے کے فوراً بعد بیان میں کہا ہے کہ وارنٹِ تلاشی و گرفتاری پر قانون کے مطابق عمل کرانے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔

جنوبی کوریا کے ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اگر صدر کو حراست میں لے لیا جاتا ہے تو تفتیش کاروں کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے 48 گھنٹے ہوں گے کہ آیا اُن سے مزید پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لینے کے لیے وارنٹ کے لیے درخواست دی جائے یا رہا کردیا جائے۔

جنوبی کوریا کے صدر کے وکیل یون گیپ گیون نے وارنٹِ گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سی آئی او کو صدر سے بغاوت کی تحقیقات کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ صدر کی قانونی ٹیم اس وارنٹ کو کالعدم قرار دینے کے لیے آئینی عدالت سے حکم امتناعی طلب کرے گی۔

صدر یون سک یول کی جماعت پیپلز پاور پارٹی کے فلور لیڈر کوون سنگ ڈونگ نے بھی وارنٹ جاری کرنے کے عدالتی فیصلے کو “نامناسب” قرار دیتے ہوئے تنقید کی۔

یاد رہے کہ یون سک یول کو 3 دسمبر کو لگائے مارشل لاء کے نفاذ پر ممکنہ طور پر عمر قید یا سزائے موت تک بھی ہو سکتی ہے۔

صدر یون سک یول کا مارشل لا مختصر عرصے کا ثابت ہوا تھا کیوں کہ عوام اور پھر ارکان اسمبلی نے اسے قرارداد کے ذریعے مسترد کردیا۔

جس کے بعد 14 دسمبر کو بھاری اکثریت سے مواخذے کی قرارداد منظور ہونے کے بعد صدر یون سک یول کو عہدے سے معطل کر دیا گیا تھا۔

صدارتی اختیارات ملک کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ چوئی سانگ موک کو سونپ دیئے گئے۔

صدر کی قسمت کا فیصلہ سنانے کے لیے عدالت کے پاس چھ ماہ کا وقت ہے۔ جس کے بعد یا تو یون سک یول کو عہدے سے ہٹا دیا جائے گا یا پھر صدارت پر بحال کر دیا جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں