راولپنڈی:ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے 9 مئی سے جڑے منصوبہ سازوں کو سزاؤں تک انصاف نہیں ہوگا، انصاف کا سلسلہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو کیفرکردار تک پہنچانے تک جاری رہے گا۔
جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں اپنی طویل پریس کانفرنس کے آغاز پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ 2024 کے اہم معاملات خاص طور پر قومی سلامتی، بدلتی علاقائی صورتحال، ملکی دفاع، اندرونی سلامتی اور رواں سال انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات پر بات کریں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ وہ مسلح افواج کی تربیتی مشقوں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیے گئے اقدامات پر بھی بات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے رواں برس مجموعی طور پر 59 ہزار 775 آپریشنز کیے ہیں، ان کارروائیوں میں خوارج سمیت 925 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان انٹیلی جنس کارروائیوں میں دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ، گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا۔
’خیبرپختونخوا میں طرز حکمرانی کی خرابیوں، خامیوں، خلا کو قربانیوں سے پر کر رہے ہیں‘
ڈی جی آئی ایس پی آرنے کہا کہ ملک دشمن دہشت گردوں کے خلاف یہ آخری خارجی کے خاتمے تک جاری رہی گی، پاکستان اپنی سرحدوں اور شہریوں کی حفاظت کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سییکورٹی فورسز نے اپنی کارروائیوں میں 27 افغان دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید بتایا کہ پاک فوج، قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر 179 سے زائد آپریشنز کیے جا رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ سیکیورٹی آپریشنز کے دوران فورسز نے 73 ہائی ویلیو ٹارگٹ، انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو کامیابی سے ختم کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کارروائیوں کے دوران 383 افسران اور جوانوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
’ایک شخص کی غلطی کی قیمت قوم نے اپنے خون سے ادا کی‘
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جو گورننس میں گیپ، اس میں جو خرابیاں اور خامیاں ہیں، وہ ہم روزانہ اپنے شہدا کی قربانیوں سے پر کر رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے رواں برس 25 بار سرحدی خلاف ورزی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان حکام کو کہتے ہیں کہ ان خارجی، دہشت گردوں کو پاکستان پر فوقیت نہ دے، ایک پاکستانی کی جان اور حفاظت افغانستان پر مقدم ہے، ہم نے مسلسل کہا کہ ان دہشت گردوں کو قابو کریں، اگر وہ قابو نہ کریں تو کیا ہم بیٹھ کر تماشہ دیکھتے رہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو دوغلی سیاست کا پرچار کرتے ہیں میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ جو اہلکار شہید کیے گئے، کیا وہ اس ملک اور صوبے کے شیردل جوان نہیں تھے؟
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 2021 میں آپریشن کے باعث خوارج کی کمر ٹوٹ گئی تھی، وہ بھاگ رہے تھے، میرا سوال ہے کہ انہیں کس نے کس کے فیصلے پر انہیں دوبارہ آباد کیا اور دوام بخشا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ جو فیصلے جن کا ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں، ان فیصلوں کی لکھائی روزانہ جوان اپنے خون سے دھو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی لیڈر سمجھنے سے قاصر ہو، کوئی فریق اپنی مرضی مسلط کرنے پر تلا ہو تو اس سے کیا بات کی جائے، اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو دنیا میں کوئی جنگ نہ ہوتی، اس تمام صورتحال کے باجود کوئی لیڈر یہ کہے جب کہ وہ اس صلاحیت سے عاری ہے کہ اپنی غلطی سے سیکھے اور سمجھے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے تو ایسے رویوں کی قیمت قوم اپنے خون سے چکاتی ہے اور ہم چکا رہے ہیں۔
’9 مئی پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بات چیت کا بیانیہ بنانے، اس پر سیاست کھییلنے کے بجائے بہتر طرز حکمرانی پر توجہ دینی چاہیے، اب وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی پر سیاست نہ کی جائے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے 9 مئی سے متعلق سزاؤں کے سوال کے جواب میں کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے افواج کا نقطہ نطر واضح اور مستقل ہے اور وہ یہ ہے کہ نو مئی پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے، یہ بات کلیئر ہونی چاہیے، نومئی سے جڑے منصوبہ سازوں کو سزاؤں تک انصاف نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی جھتہ، کوئی مسلح اور پرتشدد گروہ اس طریقے سے اپنی مرضی اور سوچ کو مسلط کرنا چاہیے معاشرے پر اور اس طرز عمل کو قانون اور آئین کے مطابق نہی روکا جائے تو پھر ہم اپنے معاشرے کو کس طرف لے کر جائیں گے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں تک سزاؤں کا ذکر کا گیا، دیکھیں 2023 میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی روح میں جو عمل تھا، فوجی عدالتوں میں جو لوگوں کو بھیجا گیا تھا، وہ منجمد کردیا گیا تھا، حال ہی میں جب 7 رکنی بینچ نے اس کے اوپر فیصلہ دیا تو اس کی روشنی میں سزائیں سنانے کا عمل اب مکمل کیا جا چکا ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ اس کے اندر مروجہ قانون کے تحت ثبوت اور شواہد کے مطابق، تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرکے، وہ تمام لوگ جو 9 مئی کی ہنگامی آرائی میں ملوث تھے اور جن کو قانون کے مطابق فوجی عدالتوں میں بھیجا گیا، ان کو سزائیں دینا کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور اس فیصلے سے یہ بڑا واضح پیغام جاتا ہے کہ اس طرح کے معاملات کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور مستقبل میں بھی کوئی اس طرح کے معاملات میں ملوث ہوگا تو اس کو آئین و قانون کے مطابق ہر صورت سزا ملے گی۔
’9 مئی کے واقعات کا کوئی قانونی، اخلاقی جواز نہیں ہے‘
ڈی جی آئی ایس آر نے کہا کہ جو آپ نے سوال کیا، اس کے توسط سے میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ 9 مئی کی جو سزائیں ہیں، اس سے جڑے، فوجی عدالتوں سے جڑے جو عدم شفافیت اور سویلین بالادستی کا بیانیہ بنایا جا رہا ہے، اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں جو ملٹری کورٹس ہیں، وہ آئین و قوانین کے مطابق دہیائیوں سے قائم ہیں اور عمل میں ہیں، یہ انصاف کے تمام تقاضوں کو بخوبی پورا کرتے ہیں، عالمی عدالت انصاف نے بھی اس پورے عمل کی توثیق کی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ملٹری کورٹس میں جو ملزمان ہوتے ہیں، انہیں وکیل کرنے، ثبوت پیش کرنے سمیت تمام قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں، انہیں اپیل کرنا بھی حق ہوتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ یہ بیانیہ اس لیے ہی بنایا جاتا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کا کوئی قانونی، اخلاقی جواز نہیں ہے، اس کا آپ کسی طرح سے دفاع نہیں کر سکتے، تو پھر اس عمل کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آج اس کے خلاف بات کرنے والے خود اس کے داعی ہوتے تھے، ایک اور دلچسپ بات بتاؤں کہ کچھ عرصہ پہلے تو یہ بیانیہ بنایا جا رہا تھا کہ یہ جو انتشاری احتجاجی ہیں، یہ ایجنسیوں کے بندے، پلانٹڈ لوگ ہیں، اور فوج نے گہری سازش کے تحت حملے کرائے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب بقول ان کے ہم نے اپنے بندوں کو سزئیں دے دی ہیں تو ان انتشاریوں کو خوش ہونا چاہیے، اب وہ پریشان ہیں، اس لیے کیونکہ اپنے اقتدار کی ہوس میں وہ منافقت اور فریب کی آخری حدوں کو عبور کرچکے ہیں، یہ ہی مسئلہ ہے، اب جو انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ہیں، انہیں بھی مقدمات کے جلد فیصلے کرنے چاہییں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی برطانیہ میں نسلی فسادات ہوئے تو کتنی سرعت کے ساتھ بالغ اور نالغ ملزمان کو سزائیں دی گئیں، جب کیپٹل ہل پر حملہ ہوا تو کتنی تیزی کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کو سزائیں دی گئیں، اس سے قبل لندن رائٹس میں 1200 لوگوں سزائیں دی گئیں۔
’پروپیگنڈے کی بنیاد رکھنے والے ہی 9 مئی واقعات کے اصل ملزم ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں اس طرح کے عناصر کو کوئی جگہ نہیں دیتا، نہ کہ ان کو جگہ دیں اور انتشار پر سیاست کی اجازت دیں، جن کو سزائیں دی گئیں، ان کے والدین کو دیکھنا چاہیے کہ کس طرح سے ان بچوں، جوانوں کو پروپیگنڈا کرکے اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے، سیاسی مقاصد اور اقتدار کے لیے استعمال کیا گیا، کچھ لوگ نوجوانوں میں اپنی سیاست کےلیے زہر ڈالتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اس لیے جو لوگ اس پروپیگنڈے کی بنیاد رکھتے ہیں، اصل ملزم تو وہ ہیں اور اسی لیے انصاف کا سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک 9 مئی سے جڑے منصوبہ ساز اور اصل گھناؤنے کرداروں کو آئین و قانون کے مطابق کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائےگا، کیونکہ پاکستان اور پاکستانی قوم اس جیسے کسی سانحے اور اس جیسی انتشاری سیاست کی اجازت نہیں دے سکتے۔
’کوئی فرد واحد، اس کی سیاست، اس کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بالا تر نہیں‘
پی ٹی آئی کے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی یہ بات کرچکا ہوں، دوبارہ دہرا دیتا ہوں کہ پاکستان کی فوج کا ہر حکومت کے ساتھ ایک سرکاری اور پیش ورانہ تعلق ہوتاہے، حکومتیں سیاسی جماعتیں بناتی ہیں، اس سرکاری، پیشہ روانہ تعلق کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں ہے، یہ پاکستان کی فوج جو کسی مخصوص جماعت یا مکتبہ فکر کی فوج نہیں ہے، ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما قابل احترام ہیں، کوئی فرد واحد، اس کی سیاست، اس کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بالا تر نہیں ہے، اس وقت وفاق اور صوبوں میں سیاسی جماعتوں کی حکومتیں موجود ہیں، سیاسی مذاکرات کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے، یہ خوش آئند ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر اپنے معاملات کو حل کریں، نہ کہ انتشاری سیاست کریں۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ فوج کا احتساب کا نظام بہت جامع ہے، 9 مئی کے پہلے ایک مربوط منصوبہ بندی اور سازش تھی، جو لوگ بھی اس منصوبہ بندی اور سازش میں ملوث تھے، انہیں آئین و قانون کے مطابق کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر فورجی افسر کےلیے ریاست اور افواج مقدم ہیں، کوئی افسر اگر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو اسے اس کا جواب دینا پڑے گا، اس کیس کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ حساس اور زیر سماعت کیس ہے، اس میں حساس معاملات جڑے ہیں، اس لیے اس پر غیر ضروری تبصروں اور تجزیوں سے گریز کیا جائے۔
26 نومبر کو ڈی چوک میں ہونے والے احتجاج کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس دن پیش آئے واقعات کے پیچھے سیاسی دہشت گردی کی خاص سوچ تھی، یہ منفی اور دہشت گردی کی سیاست کا سلسلہ 2014 میں پارلیمنٹ اور سرکاری املاک پر حملوں سے شروع ہوا، اس طرح کی سرگرمیوں سے عوام کی ترقی کے اقدامات میں رخنہ پڑتا ہے جس کی قیمت ہم سب چکاتے ہیں۔
’ضلع کرم کا معاملہ بہت پرانا، قبائلی اور زمینی تنازعات کا معاملہ ہے‘
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اس واقعے کے بارے میں یکم دسمبر کو وزارت داخلہ نے اعلامیہ جاری کیا تھا اور بتایا تھا کہ اس تمام صورتحال میں افواج مظاہرین کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں رہی، نہ اس کو پرتشدد ہجوم کو قابو کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا، اس میں واضح کیا گیا کہ سیاست قیادت اور مظاہرین میں شامل مسلح افراد نے فائرنگ کی، ہم نے ان کے ہاتھوں میں اسلحہ دیکھا جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آتشی اسلحہ دیا ہی نہیں گیا تھا، جب سیاسی قیادت وہاں سے بھاگی تو پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت فیک مواد کو تیزی کے ساتھ سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا، اس کا مقصد بے بنیاد الزامات لگائے جائیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس کے پیچھے سوشل میڈیا اور اس کو چلانے والے ہیں، اس انتشاری سیاست کا کنٹرول ملک میں نہیں، بیرون ملک موجود سوشل میڈیا کے پاس ہے، اس کے بعد انسانی حقوق کی وہ تنظیمیں ایک دم متحرک ہوجاتی ہیں جنہیں دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی نظر نہیں آتی لیکن فیک ویڈیوز اور ان دیکھی لاشوں پر ان کے جذبات بے قابو ہوجائیں گے۔
ضلع کرم کی صورتحال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہاں کا معاملہ بہت پرانا، قبائلی اور زمینی تنازعات کا معاملہ ہے، اصل بد قسمتی یہ ہے کہ یہ غلط سیاسی ترجیحات کا کیس ہے، اس کو صوبائی حکومت اور مقامی سیاستدانوں نے حل کرنا ہے، بجائے اس کے کہ ملبہ اداروں پر ڈالا جائے، ان واقعات کے دوران یہ مذموم کوشش بھی کی گئی کہ تنازع کو مسلکی رنگ دیا جائے اور اس کو بڑھایا جائے۔