پشاور:پی ٹی آئی نے آئندہ کے احتجاج اور مذاکرات کے لیے حکمت عملی وضع کرلی، نتیجہ خیز مذاکرات تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا، عمر ایوب کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی جلد لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
گزشتہ روز پشاور میں پارٹی کے قائدین کے درمیان ملاقات میں آئندہ کے احتجاجی تحریک اور مذاکرات پر بات چیت ہوئی جس میں یہ واضح کیا گیا کہ احتجاج کے ساتھ ساتھ مذاکرات کا دروازہ بند نہیں ہوگا اور تمام لوگوں سے مذاکرات کیے جائیں گے۔
غیر رسمی اجلاس میں حکومت کی طرف سے 26 نومبر کو تحریک انصاف کے پُرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے روا رکھے گئے رویے کی مذمت کی گئی اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بغیر کسی تاخیر کے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو ڈی چوک کے واقعات کی مکمل چھان بین کرے اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ گولی کس نے چلائی اور کیوں چلائی۔
انہوں نے حکومتی رویے پر افسوس کا اظہار کیا کہ پی ٹی آئی اپنا مقدمہ پارلیمنٹ کے اندر اٹھانا چاہتی ہے مگر ان کی لیڈرشپ اور کارکنوں کے اوپر بے تحاشہ جعلی مقدمات درج ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے لیڈر شپ اور کارکنوں کو عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں۔
اجلاس میں اس بات پر بھی اسٹینڈ لیا گیا کہ حکومت کچھ بھی کر لے تحریک انصاف اپنے جائز مطالبات سے پیچھقے نہیں ہٹے گی جس میں چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی، عمران خان سمیت بے گناہ سیاسی کارکنوں کی رہائی، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا خاتمہ اور ملک میں رول اف لا کی بحالی شامل ہیں۔
غیر رسمی اجلاس میں قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان، سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز، سابق صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی، رکن قومی اسمبلی آصف خان اور رکن قومی اسمبلی محمد احمد چھٹہ موجود تھے۔
شوکت یوسف زئی نے کہا کہ اجلاس میں حکومتی وزرا کے غیر سنجیدہ رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ سیاسی ورکروں اور سیاسی جدوجہد کرنے والی جماعت کو دہشت گرد قرار دینا جمہوریت کی نفی ہے۔
شوکت یوسف زئی نے کہا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پاک فوج اور پولیس کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے تو دوسری طرف کرم میں مستقل امن کے قیام کے لیے قبائلی گرینڈ جرگہ کے ذریعے حل تلاش کیا جارہا ہے اور ایسے حالات میں نالائق وزراء صوبے میں گورنر راج کے نفاز کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔