حکومت نے قومی ایئرلائن کا شعبہ انجینئرنگ 6.5 بلین روپوں میں پاک فضائیہ کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی سمری وفاقی کابینہ میں پیش کی جائے گی۔
ایک سینئر سرکاری اہلکار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ پریسشن انجینئرنگ کمپلیکس (PEC) کی مالیت 6.5 ارب روپے ہے جس میں موجودہ اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن سے متعلقہ واجبات کے 4 ارب روپے بھی شامل ہیں۔
پاک فضائیہ اس شعبے کو خریدنے کی مد میں حکومت کو آئندہ 5 برسوں میں 2.5 ارب روپے نقد ادا کرنا ہوں گے۔
علاوہ ازیں آئندہ دس برس میں ریٹائرڈ ہونے والے 259 ملازمین کی پنشن اور پروویڈنٹ فنڈ کی مد میں 3 ارب روپے کے واجبات بھی ادا کری گی۔
اسی طرح موجودہ 251 ملازمین کی تخمینہ شدہ پنشن اور پروویڈنٹ فنڈ کی واجبات میں بھی مزید 1.1 ارب روپے بھی پاک فضائیہ کے ذمے ہوں گے۔
خیال رہے کہ پی ای سی قومی ایئرلائن کا ایک کاروباری یونٹ ہے جو ایرو اسپیس انڈسٹری اور متعدد دیگر صنعتوں کے لیے اعلیٰ درستگی کے پرزے تیار کرتا ہے۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ ایک وزارتی کمیٹی پہلے ہی پاک فضائیہ کو پی آئی اے کا یہ یونٹ 6.5 ارب روپے کی کل قیمت پر منتقل کرنے کی منظوری دے چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب ایک باضابطہ سمری وفاقی کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ پی ای سی کو پہلے ہی بنیادی پی آئی اے سے الگ کیا جا چکا ہے۔
گزشتہ برس دسمبر کے آخر تک پی ای سی کے کل اثاثوں کی مالیت 1.2 ارب روپے تھی جب کہ اس کے کل واجبات کا تخمینہ 2.9 ارب روپے تھا۔
اس کی فروخت کی قیمت کا تعین کرنے کے وقت اس کی خالص منفی ایکویٹی روپے 1.73 بلین تھی۔
سرکاری اہلکار نے مزید بتایا کہ پاک فضائیہ 6.5 ارب روپے کی کل قیمت پر پی ای سی حاصل کرلے گی۔
خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں چار رکنی وزارتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ اس کمیٹی نے پی ای سی کی ملکیت پی اے ایف کو منتقل کرنے کے لیے لین دین کے ڈھانچے کی منظوری دی۔
اس کمیٹی کے ارکان میں وزیر دفاع اور ہوا بازی اور وزیر برائے نجکاری بھی شامل تھے۔
وزارتی کمیٹی نے اس شعبے کی فروخت کے لیے اثاثوں اور ذمہ داریوں کا جائزہ لیا اور رعایتی کیش فلو کے طریقہ کار کے تحت 6.5 ارب روپے کی کل قیمت کا تعین کیا۔
قیمت میں زمین، انفرااسٹرکچر، مشینری، آلات اور انسانی وسائل شامل ہیں۔
علاوہ ازیں ملازمین کے کنٹریکٹ کی شرائط بدستور برقرار رہیں گی۔ موجودہ ملازمین یکساں تنخواہ اور الاؤنسز، طبی خدمات، ایئر پاسیج الاؤنسز، پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ کے حقدار ہوں گے۔
پاک فضائیہ قومی ایئرلائن کے خریدے گئے شعبے ’’پی ای سی‘‘ کے موجودہ آپریشنز کو جاری رکھنے کے لیے مالیاتی انتظامات کا بھی ذمہ دار ہوگی۔
واضح رہے کہ حکومت نے اکتوبر میں پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کی تھی حالانکہ شارٹ لسٹ کیے گئے چھ میں سے پانچ بولی دہندگان نے واک آؤٹ کر دیا تھا اور مالی بولیاں جمع نہیں کروائی تھیں۔
جس پر حکومت نے پی آئی اے کی واحد بولی لگانے والے ریئل اسٹیٹ ڈویلپرکو فروخت کرنے کی کوشش کی جس نے 85.03 ارب روپے کی کم از کم ریزرو قیمت کے مقابلے میں 10 ارب روپے کی پیشکش کی تھی۔
بعد ازاں سیکرٹری نجکاری عثمان باجوہ نے گزشتہ ماہ پارلیمانی کمیٹی کو اس بولی کی ناکامی کے حوالے سے بتایا کہ بولی لگانے والے چاہتے تھے کہ حکومت 26 ارب روپے مالیت کے ٹیکس واجبات، سول ایوی ایشن اتھارٹی کی طرف سے 10 ارب روپے مالیت کی برج فنانسنگ اور 9 ارب روپے دیگر واجبات کو معاف کردے۔
تاہم وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے کہا تھا کہ پی آئی اے کو فروخت کرنے کی ناکام کوشش کی وجہ وزارت خزانہ کی جانب سے تعاون کا فقدان ہے جس نے بولی لگانے والوں کے جائز مطالبات تسلیم نہیں کیے تھے۔
انہوں نے نگران حکومت کو نجکاری کے ناقص لین دین کے ڈھانچے کو حتمی شکل دینے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا تھا جہاں اس نے 623 ارب روپے کی واجبات کو ختم کرنے کے باوجود پی آئی اے کی بیلنس شیٹ پر 45 ارب روپے کی منفی ایکویٹی چھوڑی۔