فرض کیجیے، خدانخواستہ آپ کو دل کا آپریشن کرانا ہیِ۔ تب آپ ایک انسانی سرجن سے آپریشن کرائیں گے یا ایک روبوٹ سرجن سے یہ نازک کام کرانا پسند کریں گے؟ جی ہاں، عنقریب ہسپتالوں میں روبوٹ سرجن آنے والے ہیں جو مریضوں کی پیچیدہ اور نازک سرجریاں بھی بڑی مہارت اور توجہ سے انجام دیں گے۔
کمپیوٹر سائنس اور طبی سائنس کے اشتراک سے شعبہ علاج میں یہ انقلاب جلد برپا ہونے والا ہے۔ اور انسانی تاریخ میں پہلے خودمختار روبوٹ سرجن کا نام’’ڈا وانچی سرجیکل سسٹم‘‘ (Da Vinci Surgical System)ہے جو انسانوں کی جانیں بچانے والی بڑی کارآمد طبی ایجاد ہے۔
سرجری یا جراحی کئی صدیوں قدیم تاریخ رکھتی ہے۔ مورخین کے مطابق مصر کے ماہر طب، سیاست داں اور ماہر فلکیات، ام ہوتپ (Imhotep) نے انسانی تاریخ میں پہلی بار سرجری پہ ایک کتاب لکھی۔ علم سرجری کو مصری، سمیری ،چینی، ہندوستانی اور عرب جراحوں نے ترقی دی۔ عالم اسلام میں حنین بن اسحاق، ابن زکریا رازی، ابن مجوسی، الزہراوی اور ابن زہر مشہور سرجن گذرے ہیں جنھوں نے اپنی تحقیق و تجربات سے علم جراحی میں بیش بہا اضافے کیے۔
سرجیکل سسٹم کی ایجاد
بیسویں صدی کے اواخر سے مشینوں کو سرجری میں استعمال کیا جانے لگا۔ انہی دنوں امریکی کمپنیوں نے ایسے خصوصی روبوٹ تیار کیے جنھیں انسانی سرجن چلاتے تھے۔ یہ روبوٹ ایجاد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سرجری جیسے پیچیدہ اور نفیس عمل کو سہل بنایا جا سکے۔
2000ء میں امریکی کمپنی، انشیٹیو سرجیکل ( Intuitive Surgical) نے ڈا وانچی سرجیکل سسٹم ایجاد کیا جو آج دنیا میں سب سے مشہور روبوٹ سرجن بن چکا۔ پچھلے چوبیس سال کے دوران ڈا وانچی سرجیکل سسٹم کے مختلف ورژن یا نمونے سامنے آچکے۔
فی الوقت پاکستان سمیت دنیا بھر کے ہسپتالوں میں سات ہزار کی تعداد میں یہ سرجیکل سسٹم کام کر رہے ہیں۔ وہ ہر سال دل، گردوں، گائنی، پروسٹیٹ غدہ، مثانے، رحم، ہرنیا، آنتوں، سر اور گردن کے کینسراور پھیپڑوں کے ہزاروں آپریشن کرتے ہیں۔ پاکستان میں سول ہسپتال ، کراچی میں ڈا وانچی سرجیکل سسٹم نصب ہے۔ سندھ گورنمنٹ قطر ہسپتال، کراچی میں 2011ء میں پہلا پاکستانی یہ سسٹم لگایا گیا تھا مگر وہ غیر فعال ہے۔
ایک عمدہ جراح
ڈا وانچی سرجیکل سسٹم کا جدید ترین ورژن ایک آٹھ فٹ لمبا اور چھ فٹ چوڑا قوی ہیکل روبوٹ ہے۔ اس کے تین بنیادی حصے ہیں: اول روبوٹک مشین، دوم کارٹ جس پر مریض کو لٹایا جاتا ہے اور سوم کونسول جس کے ذریعے سرجن روبوٹ کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ تینوں حصے ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر کی مدد سے ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔
روبوٹ تین یا چار بازو رکھتا ہے۔ دو بازؤں کے کناروں پر انتہائی نفیس چاقو نصب ہیں جن سے مریض کا جسم چاک کیا جاتا ہے۔ بقیہ دونوں ہاتھوں سے روبوٹ کیمرا اور آلات تھامتا ہے جنھیں جسم کے اندر و باہر کیا جاتا ہے۔ یہ کیمرا تھری ڈی ویو رکھتا ہے۔ اس کی مدد سے انسانی ڈاکٹر اندرون جسم اس جسمانی حصے کا بخوبی اور تفصیل سے جائزہ لیتا ہے جس کا آپریشن کرنا مقصود ہو۔ یوں بہترین آپریشن انجام دینے میں ڈا وانچی سرجیکل سسٹم انسانی سرجن کی بھرپور مدد کرتا ہے۔
انوکھی دریافت
پچھلے ماہ مگر انسانی موجدوں نے اپنی اُپچ و تجربات سے ڈا وانچی سرجیکل سسٹم کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ وہ جلد تاریخ انساں کا پہلا آزاد و خودمختار روبوٹ سرجن بن جائے گا۔ انسانی ذہن کی طاقت کو مزید وسعت دینے والے یہ موجد امریکا کی مشہور درس گاہوں ، جان ہوپکنز یونیورسٹی اور سٹانفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی ذہن کے ارتقا میں ڈا وانچی سرجیکل سسٹم ہی کام آیا۔
دراصل یہ سسٹم سرجری کرے تو پورا عمل اپنے بازو پر نصب ایک کیمرے کے ذریعے ریکارڈ کر لیتا ہے۔ یوں امریکی ہسپتالوں میں سسٹموں کی ریکارڈ شدہ وڈیوز کا ذخیرہ جمع ہو گیا۔ اس دوران مشین لرننگ (machine learning) تکنیک سے کام کرتا چیٹ بوٹ، ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘ منظرعام پر آ گیا جسے دنیا بھر میں بہت مقبولیت ملی۔ وہ انسان کو چٹکی بجاتے ہی قیمتی معلومات فراہم کرنے لگا۔ اس کی کامیابی دیکھ کر ہی امریکی یونیورسٹیوں کے ماہرین کو خیال آیا کہ مشین لرننگ تکنیک کی مدد سے ڈا وانچی سرجیکل سسٹم کو سرجری کرنا سکھایا جائے۔ اس اچھوتے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر انھوں نے کمپیوٹر سائنس کے ماہرین سے رابطہ کر لیا۔
طب کا ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘
ماہرین کمپوٹر سائنس نے تحقیق و تجربات کے ذریعے آخرکار ڈا وانچی سرجیکل سسٹم کو خودمختار سرجن بنانے والی نئی ریاضیاتی تکنیک، ’’تقلیدی لرننگ‘‘ (imitation learning) ایجاد کر لی۔ اس تکنیک نے سرجیکل سسٹم کو اس قابل بنا دیا کہ وہ سرجری کی اپنی وڈیوز دیکھ دیکھ کر اپنی حرکات وسکنات کو مزید بہتر بنا سکے۔ اس کے بعد تقلیدی لرننگ کو مشین لرننگ سے مربوط کر دیا گیا۔ چیٹ جی پی ٹی میں تو مشین لرننگ معلومات کو ’’الفاظ ‘‘میں پروسیس کرتی ہے۔ ڈا وانچی سرجیکل سسٹم میں دونوں لرننگ تکنیکیں مل کر وڈیوز سے سیکھی گئی سرجری کی حرکات کو عملی سرجری کا روپ دینے لگیں۔
یہ انوکھا تجربہ کرنے والے امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں لرننگ تکنیکوں کی مدد سے ڈاوانچی سرجیکل سسٹم پہلے کی نسبت زیادہ نفیس اور معیاری انداز میں آپریشن کرنے لگا۔ یہی نہیں، سسٹم آزادانہ حرکات کرنے کے بھی قابل ہو گیا۔ مثلاً ایک تجربے میں اوزار ہاتھ سے پھسل کر میز پر گر گیا۔ سرجیکل سسٹم نے اس کو از خود اٹھا لیا۔ گویا سسٹم سیکھ گیا کہ اوزار کیسے اٹھانا ہے۔ معنی یہ کہ ریاضیاتی تکنیکوں نے ڈا وانچی سرجیکل سسٹم کو یہ صلاحیت بخش دی ، وہ اپنے عمل سے ازخود نئی حرکات و سکنات سیکھ سکے۔
عام روبوٹ سے کیا فرق؟
یہ یاد رہے کہ بیشتر روبوٹ ایسے ہیں جن میں سافٹ وئیر نصب ہیں۔ یہ روبوٹ ایک مخصوص کام کرنے کے لیے ہی پروگرامڈ کیے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ نیا سیکھنے کی صلاحیت مفقود ہوتی ہے۔ مگر چیٹ جی پی ٹی اور اب ڈا وانچی سرجیکل سسٹم لرننگ تکنیکوں کی مدد سے کام کرتے ہوئے ازخود بہت کچھ سیکھنے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہی ندرت انھیں جدید اور طاقتور روبوٹ بنا ڈالتی ہے۔ اور کئی ماہرین ایسے ہی روبوٹوں سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ اگر یہ روبوٹ مصنوعی ذہانت کی مدد سے خودمختار ہو گئے تو اپنی کہیں زیادہ ذہنی و جسمانی طاقت کے بل بوتے پر بنی نوع انسان کو اپنا غلام بنا لیں گے۔
ڈا وانچی سرجیکل سسٹم کو لرننگ تکنیکوں کے ذریعے ابھی سرجری کے صرف تین کام کرنا سکھایا گیا ہے:سوئی سے جوڑ توڑ کرنا (needle manipulation)، بافت کو اٹھانا (tissue lifting) اور چیرے کی سلائی کرنا (suturing)۔ مگر امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ وڈیوز کی مدد سے اب چند ماہ میں ڈا وانچی سرجیکل سسٹم کو ہر قسم کا پیچیدہ اور نازک آپریشن کرنا سکھانا ممکن ہے۔جبکہ پروگرامڈ روبوٹ کو آپریشن کرنا سکھانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ مگر مشین لرننگ اور تقلیدی لرننگ تکنیکوں نے سرجیکل سسٹم کو سرجری کے مختلف طریقے سکھانا چند ماہ کو کھیل بنا دیا۔
فوائد اور نقصان
مستقبل کا یہ روبوٹ سرجن فوائد رکھتا ہے اور کچھ نقصان بھی۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہر انسان کی بہت جلد سرجری ہو سکے گی۔ فی الوقت دنیا بھر میں سرجنوں کی قلت ہے۔اسی لیے ضروری آپریشن کے انتظار میں بھی کئی ہفتے بلکہ ماہ لگ جاتے ہیں۔ اس دوران کئی مریض اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لہذا روبوٹ سرجن آ گئے تو ہزارہا انسانوں کی قیمتی زندگیاں بچائی جا سکیں گی کیونکہ لوگوں کو انتظار کی زحمت سے نجات ملے گی۔
ایک اور فائدہ یہ ہے کہ سرجری میں مہارت تامہ پا کر روبوٹ سرجن زیادہ نفاست و مہارت سے آپریشن کریں گے۔ ابھی تو گاہے بگاہے یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں سرجن دوران آپریشن اوزار مریض کے جسم میں رکھ کر بھول گیا۔ یا اس نے غلط آپریشن کر ڈالا۔ روبوٹ سرجنوں سے ایسی غلطیاں سرزد نہیں ہوں گی کیونکہ وہ بھلکڑ پن کا شکار نہیں ہو سکتے۔ یہ منفی دماغی حالت صرف زندہ وجود سے وابستہ ہے۔ گو آگے چل کر روبوٹ سرجنوں کی بھی ایسی مشینی خامیاں سامنے آ سکتی ہیں جن سے ابھی ہم ناواقف ہیں۔ ( تاہم ابھی مفروضہ ہی ہے۔)
ڈا وانچی سرجیکل سسٹم کی ایک خامی یہ ہے کہ یہ ابھی خاصا مہنگا ہے۔ اس کو بنانے، لگانے اور چلانے پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لہذا صرف امرا ہی اس روبوٹ سے علاج کرا سکتے ہیں۔ مگر ہر نئی ایجاد آغاز میں مہنگی اور بڑی ہوتی ہے۔ جیسے ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل شروع میں مہنگے اور بڑے تھے۔ اب ان کی قیمت اتنی کم ہو چکی کہ عام آدمی بھی خرید سکتا ہے۔ لہذا جوں جوں ڈا وانچی سرجیکل سسٹم پہ نئی تحقیق و تجربات ہوں گے، یہ روبوٹ سرجن نہ صرف سستا اور چھوٹا ہو گا، بلکہ وہ اس قابل ہو جائے گا کہ نہایت نفیس اور بہترین انداز میں سرجری کرسکے۔ یوں انسانیت کو قیمتی جانیں بچانے والا نیا و کارگر آلہ مل جائے گا۔
اس روبوٹ سرجن سے منسلک ایک نقصان یہ ہے کہ کئی سرجنوں کو بے روزگار کر سکتا ہے۔ گو شاید یہ عمل جلد انجام نہ پائے مگر جوں جوں شعبہ سرجری میں روبوٹ سرجن آئیں گے، انسانی سرجنوں کی ضرورت گھٹتی چلی جائے گی۔ یوں مستقبل میں انسان کے لیے شعبہ سرجری روزگار کا اچھا ذریعہ نہیں رہے گا۔
اگرچہ مصنوعی ذہانت ، کمپیوٹر سائنس،شعبہ قابل تجدید توانائی (Renewable energy) اور مشینی ریاضیاتی وغیرہ میں جدت آنے سے روزگار کے نئے شعبے جنم لے رہے ہیں ، تاہم بہت سے شعبے متروک بھی ہونے لگے ہیں۔ لہذا کئی ماہرین کے نزدیک جدید سائنسی تبدیلیوں سے یہ خطرہ بھی وابستہ ہے کہ وہ کروڑوں انسانوں کو بیروزگار کر دیں گی۔ گو نئے شعبے لاکھوں نئی ملازمتیں تخلیق بھی کریں گے۔ بہرحال یہ مستقبل ہی بتائے گا کہ اس نے اپنے دامن میں بنی نوع انسان کے لیے کیا خوش خبریاں اور کیسی اداسی بھری خبریں چھپا رکھی ہیں۔