0

کراچی کے طلبا نے ماحول دوست پولیوشن فری پیپر ایجاد کرلیا

کراچی کے طلبا نے موجودہ موسمیاتی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے ایگریکلچر ویسٹ سے ماحول دوست پولیوشن فری پیپر ایجاد کرلیا ہے۔ یہ ایک ایسا پیپر ہے جس کو استعمال کر کے پھینکنے سے اس کے اندر موجود بیج کی مدد سے چھوٹے چھوٹے پودوں کی پیداوار ہوگی جو کہ ماحول کیلئے بہت خوشگوار ثابت ہوگا کیوں کہ یہ پیپر گنے کے فضلے، کیلے، چاول اور مکئی کے چھلکوں سے مل کر بنا ہے۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ بائیو ٹیکنالوجی کے طلبہ کی بنائی گئی بائیو شیٹ سے پانی کی بچت کے ساتھ ساتھ جنگلات کی کٹائی میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی۔ اس پیپر میں کوئی زہریلا مواد نہیں ہوگا بلکہ زرعی فضلے سے تیار کیاگیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پینٹنگز کے شوقین افراد اب مہنگے کینوس کے بجائے پچاس سے سو روپے کی لاگت میں بننے والے اس ماحول دوست پیپر سے اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں۔ پیپر کی موٹائی کی وجہ سے اس پر باآسانی پینٹنگز نہ صرف کی جاسکتی ہے بلکہ سالوں تک محفوظ بھی رہے گی۔

ڈاکٹر سدرہ شاہین کی سربراہی میں گروپ ممبران عبدالرافع، انیلہ شبیر اور حبیب الرحمان نے بائیو پیپر بنایا ہے۔ گروپ ممبران نے دعویٰ کیا ہے کہ مارکیٹ میں چھوٹے کینوس کی بھی 300 سے قیمت شروع ہورہی ہے جبکہ ہم نے 50 روپےکی لاگت سے کینوس کی طرز پر یہ پیپر تیار کیے ہیں۔

طلبا نے کہا کہ پاکستان میں پیپر بہت ہی کم بنتا ہے زیادہ تر درآمد پر انحصار ہوتا ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے ناقص میٹیریل سے ایسا پروڈکٹ بنایا ہے جو کہ ماحول کو گندہ ہونے سے بھی بچائے گا۔ عموماً ایگریکلچر ویسٹ کو جلایا جاتا ہے جس سے گلوبل وارمنگ ہوتی ہے جو کہ ہمارے ماحول کیلئے نقصان دہ ہے۔ موجودہ صورت حال دیکھتے ہوئے یہ ماحول دوست پیپر بنایا ہےکاغذی صنعت میں جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے جو موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں خطرناک اثرات موجود ہیں، بائیو پیپر فصلوں کی باقیات، پودوں کے ریشوں پتوں کو استعمال کرکے ایک پائیدار متبادل حل پیش کیا ہے۔سب سے پہلے فضلہ جمع کر کے صفائی اور چھانٹنا ہوتا ہے پھر شریڈنگ اور پلپنگ کی جاتی ہے۔ اس کے بعد دھلائی اور بلیچنگ کر کے شیٹ کی تشکیل کی جاتی ہے جس کے بعد شیٹ کو تقسیم کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں کتابوں اور رسائل و جرائد کی اشاعت مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ درآمد شدہ کاغذ پر سبسڈی بھی نہیں دی جاتی حالیہ برسوں میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے نتیجے میں کاغذ کی درآمد کہیں زیادہ مشکل ہوتی جارہی ہے۔ اگر اس طرح کے طریقہ کار اپنائے جائیں تو ملک میں امپورٹ کرنے کے بجائے ایکسپورٹ میں تیزی آسکتی ہے۔

طلبا نے کہا کہ اگر حکومت تعاون کرے ملک میں کاغذ کے کارخانے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں