اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر علی ظفر نے 26 ویں آئینی ترمیم کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح یہ ترمیم ہو رہی ہے وہ میرے خیال میں جرم ہے۔
سینیٹ میں پی ٹی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آئین لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے جدا نہیں کرتا، آئین پر اتفاق رائے نہیں ہوتا ہے تو پھر وہ آئین مر جاتا ہے، 1956 کے آئین میں قوم کا اتفاق نہیں تھا، 1962 کے آئین میں بھی قوم کا اتفاق رائے نہیں تھا جو اپنی موت آپ مر گیا۔
انہوں نے کہا کہ دو حکومتیں آئین کے آرٹیکل 58 کا شکار ہوئی ہیں، ہمارے ساتھی گرفتاری کے خوف کی وجہ سے نہیں آئے، آئینی ترمیم کے لیے لوگوں کو زدو کوب کرکے ووٹ دینے کا عمل ہے لوگوں کی رضا مندی شامل نہیں، یہ عمل آئین اور جمہوریت کے خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین سوشل کنٹریکٹ ہے جو لوگوں کو جوڑ کر رکھتا ہے، آئین لوگوں کی رضامندی اور اتفاق رائے سے بنتا ہے، رضامندی نہ ہو تو آئین مرجائے گا، 1956میں ہم نے آئین بنایا اس پر قوم کا اتفاق نہیں تھا اور وہ مرگیا اور اس کے بعد مارشل لا لگ گیا، اسی طرح 62 کا آئین بھی مسلط کیا گیا اور پھر مارشل لا لگ گیا۔
علی ظفر نے کہا کہ آئین میں ترمیم پر بھی اتفاق رائے ہونا چاہیے، آرٹیکل 58/2 بی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں گئیں، ایک آمرانہ ترمیم کی وجہ سے نقصان ہوا اور مارشل لا آیا، میرے ساتھی اس لئے نہیں آئے کہ انہیں اغوا کرکے ووٹ نہ لے لیا جائے، کچھ ساتھی ابھی آئیں گے جن سے شاید ووٹ لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ زبردستی اٹھا کر لوگوں کی بیوی، بچوں کو اغوا کرکے ووٹ لینے کے عمل میں اتفاق رائے نہیں، اس طرح جو ترمیم ہو رہی ہے وہ میرے خیال میں جرم ہے، آج ہو سکتا ہے یہ بل منظور بھی کروالیں، میں نے اپنے سینیٹرز سے ایک تحریر پر دستخط لیے ہیں، اس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم اس ترمیم میں ووٹ نہیں دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آج ان میں سے کوئی سینیٹر آئے تو اس کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، ہم نے کوئی ایک بھی تجویز نہیں دی اس میں ہم اس عمل کا حصہ نہیں تھے، آئینی مسودے سے آرٹیکل 63اے ڈراپ کر دیا گیا اور حکومت نے آرٹیکل 63اے کی ترمیم واپس لے لی ہے۔
پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر نے کہا کہ شروع میں مسودہ دیا گیا تھا اس میں 80 سے زائد ترمیم تھیں، ان ترامیم کا مقصد بہانا بنا کر بنیادی انسانی حقوق کو ختم کرنا تھا، اس میں شق تھی کہ اگر کسی کو اٹھالیا جائے تو وہ کسی عدالت میں نہیں جاسکتا۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ پرسوں ہمیں مولاںا فضل الرحمان سے ملاقات کا موقع ملا، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات بند کرا دی گئی، ہمیں 35 منٹ کے لیے ملنے دیا گیا، ملاقات میں پتا چلا 15 دنوں سے بانی پی ٹی آئی کو کسی سے ملنے نہیں دیا گیا، بانی پی ٹی آئی کو پتا نہیں تھا باہر کیا ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بتایا بڑا خطرناک بل لایا جا رہا ہے، بانی پی ٹی آئی نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں یہاں اکیلا بیٹھ کر اس پر بات کرلوں، بانی پی ٹی آئی نے پوچھا 25کو کیا ہے، یہ سارا کچھ 25 سے پہلے ہے، بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں نے کسی پریشر میں نہیں آنا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے بانی چئیرمین سے مشاورت کا موقع بھی نہیں ملا، مجھے لگتا ہے یہ جو مسودہ آیا ہے اس ایوان میں بہت سارے لوگوں نے اسے پڑھا بھی نہیں ہے، 99 فیصد لوگ شاید نہ بتاسکیں آئینی ترامیم میں کیا ہے، مجھے سمجھ آگئی ہے یہ بل پاس ہوجانا ہے، اس ترمیم میں سنجیدہ غلطیاں ہیں جن سے مستقبل میں نقصان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کو بنانے کا طریقہ کار سارا حکومت کے حق میں ہے، اس سے حکومت سارے اپنے جج عدالتوں میں بٹھا سکتی ہے، ججوں کی تقرری کے لیے اس قانون میں کرائٹیریا نہیں دیا گیا، پریزائیڈنگ جج کے کیا اختیارات ہیں وہ بھی نہیں بتایا گیا اس لیے ہم ہم اس میں ووٹننہیں کریں گے۔
سینیٹر ظفرعلی کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کے شکرگزار ہیں حکومت جو خطرناک بل لارہی تھی مولانا نے اس سے ہمیں بچایا ہے۔