تل ابیب: اسرائیل کے غزہ پر مسلسل حملوں کو آج ایک سال مکمل ہوگیا اور اس دوران ایک بھی ایسا دن نہیں گیا جب صیہونی ریاست نے بمباری نہ کی ہو۔
اس جنگ کا آغاز گزشتہ برس 7 اکتوبر کو ہوا تھا جب حماس کے جانبازوں نے اسرائیل کی تمام تر ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سرحدی تحفظ کو چکمہ دیکر آسمان ابابیلوں کی صورت میں یہودی سرزمین میں داخل ہوگئے تھے۔
حماس کے جانبازوں نے پیراشوٹس کے ذریعے سرحد عبور کی اور پھر موٹر سائیکلوں پر اسرائیلی فوج کی تنصیبات تک پہنچے، مقابلہ کیا جس میں 1500 اسرائیلی مارے گئے جب کہ 250 افسران اور اہلکاروں کو یرغمال بناکر غزہ لے آئے تھے۔
جس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری شروع کی تاہم حماس کے حوصلے پست نہ کرسکا تو 27 اکتوبر کو اپنی برّی فوجوں کو غزہ میں داخل کردیا لیکن وہاں بھی اسرائیلی فوج کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
جنگ کا ایک سال مکمل ہونے پر اسرائیلی فوج کی جانب سےجاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس جنگ میں صیہونی ریاست کے 728 فوجی مارے گئے اور 5 ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔
اسی طرح غزہ میں اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان دوبدو جھڑپوں میں 346 فوجی ہلاک اور ڈھائی ہزار کے قریب زخمی ہوگئے۔
گزشتہ ایک برس کے دوران حماس اور حزب اللہ کے تابڑ توڑ حملوں سے گھبراہٹ کی شکار اسرائیلی فوجیوں نے غلطی سے اپنے ہی ساتھیوں کو نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں ایسے واقعات میں تقریباً 56 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔
گزشتہ ایک برس میں حماس اور حزب اللہ کے 26 ہزار سے زائد راکٹس اور ڈرونز حملوں سے اسرائیلی سرزمین لرزتی رہی اور شہری بنکرز میں پناہ لیے رہے۔
اسرائیلی فوج کے بقول گزشتہ ایک برس میں غزہ سے 13 ہزار 200 راکٹس داغے گئے جن میں سے 5 ہزار صرف 7 اکتوبر کو داغے گئے تھے۔ لبنان سے 12 ہزار 400، شام سے 60، یمن سے 180، ایران سے 400 راکٹس اسرائیل پر برسائے گئے۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ ایک برس کے دوران غزہ میں 17 ہزار مزاحمت کاروں کو مارا جن میں حماس کے 8 بریگیڈ کمانڈرز، 30 سے زائد بٹالین کمانڈرز، 165 سے زائد کمپنی کمانڈرز اور اسی درجہ کے کارکن بھی شامل ہیں۔
گزشتہ ایک برس کے دوران اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے پر بھی دھاوا بولا اور 150 چھاپا مار کارروائیوں کے دوران 690 مزاحمت کاروں کو ہلاک کیا۔
مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج نے 5 ہزار 250 فلسطینیوں کو گرفتار کیا جن میں سے 2,050 حماس سے وابستہ ہیں جب کہ دیگر کا اسلامی جہاد اور فتح سے ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے لبنان میں کی گئی مختلف کارروائیوں میں 800 مزاحمت کاروں کو مارا جن میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ سمیت اہم ترین 90 کمانڈرز اور اگلی قیادت بھی شامل ہے۔
اسرائیلی فوج نے بتایا کہ ایک سال کے دوران غزہ میں 4 ہزار 700 سے زائد سرنگوں کو تباہ کیا اور 40 ہزار 300 اہداف کو نشانہ بنایا گیا جب کہ لبنان میں حزب اللہ کے 11 ہزار ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
اعداد و شمار کے مطابق جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کے اندر تقریباً ایک ہزار حملہ آور مارے گئے۔
گزشتہ ایک سال میں اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے یونٹ 504 نے غزہ میں تقریباً 7 ہزار فلسطینیوں سے پوچھ گچھ کی جن میں سے اکثر کو گرفتار کر کے اسرائیل بھی لایا گیا۔
اسرائیلی فوج اتنی جارحیت اور طاقت کے بے دریغ استعمال کے باجود تاحال اپنے یرغمالیوں کو بحفاظت واپس نہیں لا سکا ہے۔ 250 میں سے اکثر یرغمالی حماس کی قید میں اسرائیلی بمباری میں مارے گئے۔
جس پر اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور انھیں شدید عوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ اسرائیلی عوام مایوس اور امید کھو بیٹھے ہیں۔
اس دوران اسرائیل اپنی عالمی حمایت بھی کھوتا جا رہا ہے۔ کئی یورپی ممالک نے فلسطین کو ایک الگ ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ عالمی عدالت نے اسرائیل کو جنگی جرائم اور نسل کشی کا مرتکب قرار دیا۔
اسی طرح اقوام متحدہ بھی مسلسل اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا آیا ہے۔ فرانس جیسا اتحادی ملک بھی پیچھے ہٹ گیا۔ گزشتہ ایک سال کی جنگ نے اسرائیل کے رعب و دبدبے کو ختم کیا بلکہ سفارتی طور پر اسرائیل کو تنہا کردیا۔