اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد کیلیے پاس کیے گئے پرُامن احتجاج بل کے خلاف درخواست پر کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے اور آزادی کا کیا یہ مطلب ہے کہ سب بلاک کردیں؟ کیا ہمارا اختیار ہے کہ ہم شاہراہِ دستور کے سامنے احتجاج کریں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دارالحکومت میں نئے قانون پُرامن احتجاج بل کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور وکیل انتظار حسین پنجوتھہ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ وکیل درخواست گزار سمیت کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست کو پہلے سے زیر سماعت کیس کے ساتھ یکجا کردیا اور کہا کہ اسی نوعیت کی درخواست پہلے بھی آئی ہے اس کے ساتھ یکجا کریں گے۔
درخواست گزار وکیل نے کہا کہ پُرامن احتجاج خلافِ قانون ہے، اسلام آباد میں لوگوں کے جمع ہونے اور احتجاج کے خلاف قانون پاس کیا ہے ہم نے اسے چیلنج کیا ہے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ آپ ایک بات بتائیں ایک دم پچاس لوگ شاہراہِ دستور پر آجائیں تو کیا ہوگا؟ اسی کمرہ عدالت میں پچاس لوگ ہیں یہ سارے اچانک وہاں باہر جا کر کھڑے ہو جائیں کیا یہ بہتر ہوگا؟ آزادی اظہار رائے اور آزادی کا کیا مطلب ہے سب بلاک کردیں؟ کیا ہمارا اختیار ہے کہ ہم شاہراہِ دستور کے سامنے احتجاج کریں؟
انہوں نے کہا کہ اگر ہم سڑک پر کھڑے ہوجاتے ہیں تو ہم دوسرے کے آنے جانے کی آزادی کو نقصان پہنچائیں گے، آپ نے قانون میں تضاد کو چیلنج کیا ہے، میرے پاس نہ نہ کرتے ہوئے 10 درخواستیں پڑی ہوئی ہیں ہر روز ریڈ زون بند کر دیا جاتا ہے، کل وکلاء میرے پاس آئے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، میں نے ڈی سی کو بھی بلا کر کہا تھا اگر ریڈ زون ہے تو پھر اسے ریڈ زون ہی رہنا چاہیے۔
وکیل نے کہا کہ اس قانون کے مطابق احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کے سامنے لوگ اکھٹے ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وہاں لوگ بغیر اجازت کے جمع ہوتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں؟ وکیل نے کہا یہ قانون آئین کے آرٹیکل 15 اور 19 کے خلاف ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سمجھتے ہیں آزادی اظہار کی آڑ میں کسی کو گالی دے دیں؟ دیگر درخواستیں بھی ہیں اس درخواست کو بھی ان کے ساتھ منسلک کرکے سن لیں گے۔