سڈنی: آسٹریلوی سائنس دانوں کی ایک ٹیم مکھی کی عام قسم میں جینیاتی تبدیلی لا رہی ہے تاکہ یہ انسان کا پیدا کردہ نامیاتی فضلا زیادہ سے زیادہ کھا سکے۔
بلیک سولجر مکھیوں کو پہلے ہی نامیاتی فضلے (جیسے کہ بچ جانے والا کھانا) کی کھپت کے لیے کمرشلی سطح پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم، ان کی جینیات میں تبدیلی لا کر ان کے فضلے کی کھپت کو بڑھاتے ہوئے چکنائی پر مشتمل مرکبات اور خامرے پیدا کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
سڈنی کی میک کوئری یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ٹیم نے اپنے سائنسی مقالے میں ان مکھیوں سے جڑی اپنی امیدوں اور ان کے دنیا کو گرم کرنے والی گیس میتھین کی مقدار کم کرنے طریقے کے متعلق بتایا۔
مقالے کی سربراہ مصنفہ ڈاکٹر کیٹ ٹیپر کا کہناتھا کہ ہم موسمیاتی تباہی کی جانب گامزن ہیں اور زمین میں بھرا جانے والا کچرا میتھین خارج کرتا ہے۔ ہمیں یہ مقدار صفر تک لے جانا ہے۔
ڈاکٹر کیٹ ٹیپر نے ڈاکٹر مسیجو ماسیلکو کی زیر نگرانی چلنے والی جامعہ کی ایک لیب میں مکھیوں کی جینیات میں تبدیلی شروع کر دی ہے۔
ڈاکٹر مسیجو ماسیلکو کا کہنا تھا کہ دنیا کو درپیش کچرے کے مسئلے (جس میں تنہا بچے ہوئے کھانے کی مقدار 1 اربٹن کے قریب ہے) سے نمٹنے کے لیے اگلا ہدف کیڑے ہوں گے۔