0

غذا میں موجود مضر صحت چکنائی کو 2فیصد تک محدود کیا جائے، ماہرین

اسلام آباد: پاکستان کی سول سوسائٹی نے پالیسی سازوں اور قانون سازوں پر زور دیا ہے کہ پاکستان بھر کے تمام غذائی ذرائع میں صنعتی طور پر پیدا شدہ ٹرانس فیٹی ایسڈز کی مقدار کل چربی کے 2 فیصد تک محدود کی جائے۔

صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹی ایسڈ نقصان دہ ہیں جو عام طور پر بہت سے پروسیسڈ کھانوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں سالانہ دو لاکھ سے زائد امراض قلب سے ہونے والی اموات سے منسلک ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں عالمی سطح پر ہونے والی خاطر خواہ پیش رفت پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن ساتھ ہی پاکستان سمیت پیچھے رہ جانے والے خطوں میں فوری اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

جی ایچ اے آئی کے کنٹری کوآرڈینیٹر منور حسین نے پاکستان میں ریگولیشن کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ثبوت واضح ہیں کہ ٹرانس فیٹس کی ہماری خوراک میں کوئی جگہ نہیں ہے، ہمارے شہریوں کی صحت خطرے میں ہے اور یہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنی خوراک سے ان نقصان دہ مادوں کو ختم کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ بہترین طرز عمل کی پالیسیوں کو نافذ کرے۔ مفاد عامہ کو ہمیشہ اولین ترجیح دی جانی چاہیے اور اپنے شہریوں کی صحت کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی وائی سی اے) کے ڈائریکٹر کمیونیکیشنز اینڈ ایڈووکیسی افشار اقبال کا کہنا تھا کہ عوام کو ٹرانس فیٹس کے خطرات سے آگاہ کرکے اور سخت قوانین کی وکالت کرکے ہم سالانہ ہزاروں زندگیاں بچا سکتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اگرچہ پیش رفت ہوئی ہے لیکن 2025 کی توسیع شدہ مدت تک عالمی سطح پر ٹرانس فیٹس کے خاتمے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ پاکستان 2023 کی ٹائم لائنز پوری کرنے میں ناکام رہا لیکن اب اس ہدف میں نمایاں کردار ادا کرنے کا ایک انوکھا موقع ہے، سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشی ایٹوز، پاکستان (سی پی ڈی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد نے مل کر کوشش کرنے پر زور دیا۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کو ’’کم پابندیوں‘‘ کے زمرے میں رکھا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحت عامہ کو آئی ٹی ایف اے کے خطرات سے بچانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جن ممالک نے ٹرانس فیٹس کو موٴثر طریقے سے ختم کیا ہے ان کی کامیابی کی کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ نہ صرف قابل حصول ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔

پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی بہترین پریکٹس پالیسیوں کو اپنانے کے لیے تمام کھانے پینے کی اشیاء کے لیے معیاری قواعد و ضوابط بنانے کی ذمہ دار ہے۔

سول سوسائٹی کی تنظیموں نے نیشنل ریگولیٹری باڈی سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ تاخیر کا ہر دن پاکستان میں خوراک میں آئی ٹی ایف اے کے استعمال سے منسلک بیماریوں کی وجہ سے لوگوں کی پریشانیوں اور اموات کا باعث بنتا ہے۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں