میں اکثراس بات پرشکر ادا کرتا ہوں کہ کم از کم کرکٹ کی حد تک ہم پاکستانی تنگ نظر نہیں ہیں، اگر کوئی بھارتی کرکٹر اچھا کھیلے تو دل کھول کر تعریف کرتے ہیں، میچز میں یا سڑک پر کوئی مداح ویراٹ کوہلی کے نام والی شرٹ پہنا بھی نظر آ جاتا ہے،اسے کوئی کچھ نہیں کہتا۔
حال ہی میں جب بھارت نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ جیتا تو ہمارے کرکٹ اسٹارز اور عوام سب نے انھیں مبارکباد دی، البتہ سرحد پار ایسا ماحول نہیں ہے، وہاں اگر کوئی پاکستانی کھلاڑی کی تعریفیں کرے تو غدار ہونے کا الزام لگ جاتا ہے، سابق کرکٹر اگر مسلمان ہو اور کچھ اچھا کہے تو پاکستان چلے جانے کے مطالبات ہونے لگتے ہیں، بابر اعظم کے نام کی شرٹ پہن کر کوئی گھومے تو شاید اسے زندہ ہی جلا دیا جائے،آپ ثانیہ مرزا، عرفان پٹھان یا ایسی کسی بھی معروف شخصیت کی مثال لے لیں بظاہر وہ بڑے خوش نظر آتے ہیں لیکن اندر سے گھٹے گھٹے سے ماحول میں رہ رہے ہوتے ہیں اور بیشتر وقت خود کو محب الوطن ثابت کرنے کی کوششوں میں گذر جاتا ہے۔
اسکرین پر کئی درجن لوگوں کو اکیلے مارنے پیٹنے والے دبنگ سلمان خان ہوں، شاہ رخ خان ہوں یا عامر خان کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئیڈیل زندگی گذار رہا ہے، بیچارے روز اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی ہی تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں، اسی لیے ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ ایک آزاد ملک میں سانسیں لے رہے ہیں، بھارت میں معروف مسلم شخصیات کا یہ حال ہے تو عام لوگوں کا کیا ہوگا؟
جب سے نریندر مودی وزیر اعظم بنے بھارت میں انتہا پسندی بڑھ گئی، ان کی دوکان چل ہی پاکستان کے نام پر رہی ہے، ایسے میں اب کوئی کیسے سوچ سکتا ہے کہ آئندہ سال وہ اپنی کرکٹ ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی کیلیے سرحد پار جانے دیں گے،ماضی میں پاکستان بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا، سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد ملکی کرکٹ میدان بھی ویران ہو گئے، سیکیورٹی ایجنسیز نے قربانیاں دے کر حالات بہتر کرانے میں اہم ترین کردار ادا کیا، اس سے غیرملکی ٹیموں کا اعتماد بھی بحال ہوا اور اب سوائے بھارت کے سب ہی پاکستان آ کر کھیل چکی ہیں، اب ہمارے ملک کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے، معاشی حالات اچھے نہیں لیکن اس کا اثر کرکٹ پر نہیں پڑا۔
آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صرف 3 کرکٹ اسٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن کیلیے ہی 12 ارب 80کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے، کرکٹ بورڈ کے پاس بہت پیسہ ہے،آئی سی سی اور بھی دے گی، لہذا آئندہ سال کے اوائل میں چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی میں ہمیں کوئی مسائل نہیں ہوں گے، دیگر ٹیموں کو کوئی مسئلہ نہیں اور وہ آنے کو تیار ہیں لیکن حسب روایت بھارتی بورڈ نے نخرے دکھانا شروع کر دیے ہیں، اس سے پہلے ایشیا کپ کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔
سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے دن رات ایک کر کے ہائبرڈ ماڈل منظور کرایا تھا ورنہ شاید ایونٹ ہی نہ ہو پاتا، البتہ سری لنکا میں بھارت کے میچز سے فائدہ نہیں نقصان ہی ہوا، یوں یہ فارمولہ فلاپ ہو گیا، اس وقت بی سی سی آئی نے چند دیگر بورڈز کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا جس کی وجہ سے پی سی بی کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اب چونکہ چیمپئنز ٹرافی آئی سی سی کا ایونٹ ہے تو ٹینشن تھوڑی کم ہے، بھارتی حکومت کبھی پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتی۔
عالمی ایونٹ سے ملک میں زرمبادلہ بھی آئے گا اور دنیا میں روشن تصویر پیش ہوگی، یہ بھارت کیسے برداشت کر سکتا ہے،سیکریٹری کرکٹ بورڈ جے شاہ کے پتا جی امیت شاہ بی جے پی لیڈر اور مودی کے خاص الخاص ہیں، وہی اپنے بیٹے کو ہدایات دیتے ہیں، اب اگر انھوں نے کہہ دیا کہ ٹیم کو پاکستان نہیں بھیجنا تو وہ نہیں بھیجیں گے، وہی پرانا بہانہ سامنے آئے گا کہ حکومت نے اجازت نہیں دی، پھرآئی سی سی کا امتحان ہو گا کہ وہ بغیر کسی ٹھوس وجہ سے اس رویے کی وضاحت لے اورسخت قدم اٹھائے، مگر بدقسمتی سے اسے تو کہا ہی انڈین کرکٹ بورڈ جاتا ہے۔
حالیہ ورلڈکپ کی مثال سامنے ہے جب بھارتی شائقین کو پرائم ٹائم میں میچز دکھانے کیلیے بیشتر کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح کیا گیا جس سے ویسٹ انڈیز میں اسٹیڈیمز خالی نظر آئے، شام کو مقابلے ہوتے تو لوگ آتے، اسی طرح سیمی فائنل کہاں ہوگا بلو شرٹس کوایونٹ سے قبل ہی بتادیا گیا تھا،اس پر تو آسٹریلوی اور انگلش سابق کرکٹرز بھی تلملا اٹھے، یہ ٹھیک ہے جو اولاد زیادہ پیسہ کما کر لاتی ہے والدین بھی اس سے زیادہ پیار کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ لاڈلے کے چکر میں دیگر کو نظر انداز کر دیا جائے۔
بدقسمتی سے اب ایسا ہی ہو رہا ہے، رواں ماہ آئی سی سی کی میٹنگ میں چیمپئنز ٹرافی پر بات ہوگی، پاکستان کو اس میں دوٹوک موقف اپنانا چاہیے کہ بھارت تحریری طور پر ایونٹ میں شرکت پر حامی بھرے، اگر انکار کیا تو حکومت سے ٹھوس وجہ کا حامل خط لے کر آئے، پاکستان یہاں اربوں روپے اسٹیڈیمز پر خرچ کر رہا ہے اور بعد میں پتا چلے کہ چیمپئنز ٹرافی ہی نہیں ہو رہی تو یہ پیسہ کہاں سے واپس آئے گا؟ یقینی طور پر آئی سی سی بھی اپنا ایونٹ خراب نہیں کرنا چاہے گی،اسے چاہیے کہ غیریقینی کی فضا کا جلد خاتمہ کرے۔
ہائبرڈ ماڈل فلاپ ثابت ہو چکا اسے دوبارہ اپنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پی سی بی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھارتی ٹیم صرف لاہور میں اپنے میچز کھیل لے، یوں اسے زیادہ سفر بھی نہیں کرنا پڑے گا، میچز کے دوران پاکستان میں عالمی معیار کی سیکیورٹی ہوتی ہے، شائقین بھی بھارتی کرکٹرز کو پسند کرتے ہیں، وہ انھیں اپنے سامنے کھیلتا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے، مودی ایک بڑے ایونٹ تو اپنی ہٹ دھرمی کا نشانہ نہ بنائیں، ہماری حکومت نے کبھی کھیلوں میں سیاست کو شامل نہیں کیا، نہ صرف کرکٹ بلکہ ہاکی اور دیگر کھیلوں کی ٹیمیں بھی بھارت جاتی ہیں تو بلو شرٹس یہاں کیوں نہیں آ سکتے؟ دیکھتے ہیں بھارتی حکومت کے رویے میں کوئی لچک آتی ہے یا ایک بار پھر کرکٹ کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔