0

مدد چاہتی ہے یہ ہوا کی بیٹی

عقل و نطق دو ایسی قوتیں ہیں جو انسان کو حیوان سے ممتاز اور معتبر بناتی ہیں اور اس کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کر تی ہیں۔ عقل اور شعور کی بدولت انسان اچھائی اور برائی، صحیح اور غلط میں تمیز کر تا ہے۔ قوت نطق کے ذریعے انسان اپنی بات دوسرے انسانوں کو سمجھا سکتا ہے اور دوسروں کی بات خود سمجھ سکتا ہے۔

اگر طاقت و وحشت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو حیوانات انسانوں سے کہیں زیادہ طاقت ور اور خطرناک ہوتے ہیں۔ جب کوئی آدمی ان دو اعلیٰ و ارفع اوصاف سے عاری ہو جاتا ہے تو پھر اس میں اور حیوان میں کوئی خاص فرق باقی نہیں رہ جاتا۔

کچھ اسی طرح کے انسان نما حیوانوں نے اپنی حیوانیت اور وحشیانہ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تھانہ صدر کے مقامی گاؤں چک 477 ج ب میں ایک بار پھر سے “حوا کی بیٹی” کو نام نہاد ”غیرت“ کے نام پر قتل کر دیا۔

اس قتل کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی لرزہ خیز ویڈیو دیکھ کر دل دہل گیا کہ کوئی والد اور بھائی اتنا سفاک اور بے رحم بھی ہو سکتا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ادھیڑ عمر شخص بڑے اطمینان سے ایک چارپائی پر بیٹھا ہوا ہے اور ایک نوجوان لڑکا دوسری چارپائی پر اپنی پوری طاقت سے ایک بے بس لڑکی کا گلا گھونٹ کر اس کو قتل کر رہا ہے۔ اسی دوران ادھیڑ عمر شخص کی ویڈیو بنانے والے اور کمرے میں موجود خاتون کی گفتگو بھی سنی جا سکتی ہے جس میں وہ سفاک جانور ان سے کہتا ہے کہ یہ آپ کو زیادہ پیاری ہے، کیا یہ میری کچھ نہیں لگتی، یہ میری بیٹی ہے۔

اس واقعہ کی تفصیلات آنے پر معلوم ہوا کہ گلا گھونٹ کر قتل کرنے والا مقتولہ کا سگا بھائی ہے اور ساتھ بیٹھا ہوا ادھیڑ عمر شخص ان دونوں کا والد ہے جس کی ایما پر یہ قتل کیا گیا۔ ویڈیو بنانے والا بھی مقتولہ کا بھائی ہے اور ساتھ کھڑی خاتون مقتولہ کی بھابی ہے۔

اہل خانہ نے لڑکی کو قتل کرنے کے بعد اس واقعہ کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی اور مسجد میں جنازے کا اعلان یہ کہتے ہوئے کروایا کہ لڑکی ہیضہ ہونے کی وجہ سے وفات پا گئی ہے۔ قتل کے بعد رات کو ہی اس کی تدفین بھی کر دی گئی۔

وقوعہ کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد پولیس نے فوری طور پر مقدمہ درج کر کے ملزمان کو گرفتار کر لیا اور تفتیش کا عمل شروع کر دیا۔

بعد ازاں پولیس کو مقتولہ کے دوسرے بھائی کی جانب سے ایک درخواست موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ملزمان یعنی اس کا بھائی اور والد مقتولہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب بھی رہے، یہ بات مقتولہ نے اپنی بھابی یعنی درخواست گزار کی اہلیہ کو بتائی تھی۔ یہی بات مقتولہ کے قتل کا سبب بھی بنی۔ یہ انکشافات قاتل نے بھی پولیس کو دیے گۓبیان میں کیے ہیں۔

پاکستان میں خواتین کا غیرت کے نام پر قتل اور جنسی استحصال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً ایک ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔

یہ حوا کی بیٹیاں آۓ دن کبھی جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد یا پھر تیزاب گردی کا نشانہ بنتی ہیں۔ کہیں کاروکاری کی بھینٹ چڑھتی ہیں، تو کہیں کالا کالی کا شکار ہوتی ہیں۔ کبھی طور طورہ، تو کبھی سیاہ کاری کا الزام لگا کر ربّ العزت کی اس خوبصورت تخلیق کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔

کبھی کوئی خاتون گھر والوں کے ہاتھوں ”غلطی“ سے گولی چل جانے سے ہلاک ہو جاتی ہے، تو کبھی چولہا پھٹ جانے سے لقمہ اجل بن جاتی ہے۔

یہ کیسی عجب بات ہے کہ عورت کو عزت اور غیرت سے تو منسوب کیا جاتا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ خود اسے عزت نہیں دی جاتی؟

کیا عورت کے اپنے کوئی جذبات و احساسات نہیں ہوتے؟ کیا اس کو اپنی پسند اور ناپسند کے اظہار کا کوئی حق نہیں؟

اگرچہ پاکستان میں اکتوبر 2016 میں کریمنل لا ایکٹ میں ترمیم کے بعد غیرت کے نام پر قتل کو بھی فساد فی الارض کے جرائم میں شامل کیا گیا ہے، غیرت کے نام پر قتل کی سزا عمر قید اور سزائے موت رکھی گئی ہے، اگر قاتل کو مقتول کا ولی یا خاندان کا کوئی فرد معاف بھی کر دے تو پھر بھی عدالت اسے عمر قید کی سزا دے گی لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود بھی ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں؟

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں میں سے صرف دو فیصد کو سزا ملتی ہے اور باقی بری ہو جاتے ہیں۔

جب تک عورت کو ایک جنس کے طور پر دیکھا جائے گا اور اس کے ساتھ غیر مساوی سلوک روا رکھا جائے گا۔ تب تک ایسے واقعات میں کمی نہیں ہو گی۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے عورت کا تعلیم یافتہ اور خود مختار ہونا اشد ضروری ہے۔ افراد کی تربیت اعلیٰ معاشرتی اقدار اور انسانیت کی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ قانون اور سزا کے عمل کو زیادہ موثر اور تادیبی بنایا جانا چاہیے تاکہ خواتین کو چار دیواری کے اندر اور باہر نان نہاد “عزت و غیرت” کے ٹھیکیدار بھیڑیوں سے مکمل تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

ہم اپنے مشرقی خاندانی نظام پر بڑا فخر کرتے ہیں اور اس نظام کو مغربی معاشرے کے سامنے ایک عمدہ مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ بیٹی جو اپنے گھر کو ایک مضبوط اور محفوظ پناہ گاہ سمجھتی ہو گی، اسی گھر کے اندر اپنے سگے باپ اور بھائی کے ہاتھوں لٹ گئی، مٹ گئی، خود پے ہونے والے اس بہیمانہ “ظلم” پر اس کی روح “عالمِ برزخ” میں بھی آج تک تڑپ رہی ہو گی

یہ “حوا کی بیٹی” اس نام نہاد نظامِ عزت و غیرت کے ماتھے پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے؟

بقول ساحر لدھیانوی
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
تحریر: آفتاب وڑائچ (ناروے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں