افطار میں کچھ ہی وقت باقی تھا، آصف اپنی والدہ کے ساتھ افطاری کرنا چاہتا تھا، اس لیے وہ تیزی سے بائیک چلاتا ہوا اپنے گھر جارہا تھا کہ اچانک اسے اپنے گلے پر کسی چیز کے ٹکرانے اور شدید تکلیف کا احساس ہوا۔ آصف بائیک سے گرگیا، اپنی تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اس نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اس کا دماغ ماؤف ہورہا تھا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔
سڑک سے گزرنے والے لوگ بھاگ کر اس کی طرف آرہے تھے۔ صرف چند سیکنڈ میں آصف کے پورے کپڑے خون میں لت پت ہوچکے تھے۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ سکتا، وہ لڑکھڑا کر گرگیا۔ آصف کی زندگی کی ڈور، کسی پتنگ کی ’’بے رحم قاتل ڈور‘‘ نے منقطع کردی تھی۔
پتنگ کٹنے پر ’’بوکاٹا‘‘ کی آوازیں لگانے والے انسانی گلا کٹنے پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ ملک میں روز اس طرح کے واقعات سامنے آرہے ہیں لیکن پتنگ بازی کے شوقین باز نہیں آرہے۔
پتنگ بازی ایک دلچسپ مشغلہ رہا ہے۔ نیلے آسمان کی وسعتوں میں سفید، اودے، سرمئی بادلوں کے ساتھ ہوا کے دوش پر اٹکھیلیاں کرتی رنگ برنگی پتنگیں سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ کھیل بہت مقبول ہے لیکن اب کچھ عرصے سے پتنگ بازی پر حکومت کی جانب سے بار بار پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ پتنگ بازی جیسے مشغلے پر پابندی کی بنیادی وجہ وہ ’’قاتل ڈور‘‘ ہے جس نے اَن گنت افراد کی ’’سانسوں کی ڈور‘‘ کو منقطع کردیا ہے۔ پاکستان بھر میں پتنگ کی اس قاتل ڈور نے نہ صرف درجنوں افراد کو شدید زخمی اور ہمیشہ کےلیے آواز سے بھی محروم کردیا، بلکہ کئی افراد اس ڈور کا شکار ہوکر زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
پتنگ بازی کے باعث ہونے والے حادثات کے پیش نظر امسال بھی حکومت کی جانب سے پتنگ بازی پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آسکے اور نہ صرف یہ مشغلہ جاری رہا بلکہ کئی حادثات بھی رپورٹ ہوئے۔ پتنگ کی ڈور سے ہلاکتوں کی شرح پنجاب میں سب سے زیادہ ہے۔
اس سال کی ابتدا سے ہی گلے پر ڈور پھرنے سے کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئیں۔ حالانکہ ’’انسداد پتنگ بازی ایکٹ‘‘ بھی موجود ہے لیکن پاکستان میں کسی بھی قانون پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہوا ہی کب ہے؟ انسداد پتنگ بازی کی ٹیمیں پتنگ بازوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں سرگرم تو ہیں لیکن ان کی کارروائیاں معصوم بچوں کی پکڑ دھکڑ اور انھیں سرزنش کرنے تک ہی محدود ہیں۔
پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق پتنگ بازی پر ممانعت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر صرف ایک ماہ میں 2855 مقدمات درج کیے گئے اور 2991 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ فیصل آباد میں ہونے والے اس حالیہ واقعے کے بعد ہی پولیس نے چوبیس گھنٹوں کے دوران پتنگ بازی میں ملوث 512 افراد کو گرفتار کیا، اور ساٹھ ہزار کے قریب پتنگیں، سات سو ڈوریں اور چرخیاں وغیرہ بھی برآمد کی گئیں۔ پنجاب پولیس کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ پتنگیں ضبط کرکے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آسکے۔ کیا وجہ ہے کہ پتنگ بازوں کے ساتھ دھاتی ڈور اور پتنگیں بنانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں کیا گیا؟ جب مارکیٹ میں پتنگیں اور قاتل دھاتی ڈور ہی دستیاب نہیں ہوگی تو پتنگ باز کیسے اس کھیل میں شریک ہوں گے؟ لیکن یہاں بھی وہی حال ہے کہ گٹگا، ماوا پر پابندی عائد کرنے کے باوجود ان کے بنانے والوں پر کوئی قدغن نہیں لگاتا اور ’’اوپری کمائی‘‘ کےلیے سب کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر پتنگ بازی کا یہ دلچسپ مشغلہ ایک خونیں کھیل کیسے بن گیا؟ آخر کیوں پتنگ بازی سے انسانی ہلاکتوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں؟ صرف دو دہائی پہلے تک بھی پتنگ بازی اور بسنت کو ایک ثقافتی کھیل کا درجہ حاصل تھا۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ماہِ فروری کی آمد کے ساتھ ہی بہار کے استقبال اور بسنت منانے کےلیے بطور خاص پتنگ بازی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ نہ صرف اس کھیل کو ’’غیر شرعی‘‘ قرار دیا جانے لگا بلکہ کئی غیر قانونی طریقوں اور پتنگ اڑانے میں استعمال کی جانے والی غیر قانونی ڈور کے استعمال نے بھی اس مشغلے پر پابندی کی راہ ہموار کی۔
پتنگ باز دوسروں کو نیچا دکھانے اور ان کی پتنگ کاٹنے کےلیے ایسی دھاتی ڈور کا استعمال کرتے ہیں جسے مختلف کیمیکلز ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ ڈور آسانی سے ٹوٹتی نہیں اور یہی ڈور کسی راہ گیر یا موٹرسائیکل اور کھلی گاڑیوں میں سوار لوگوں کا گلا کاٹنے کا بھی باعث بن جاتی ہے۔ کانچ کے ٹکڑوں سے بنا ہوا مانجھا، نائیلون اور دھاتی ڈور اور کیمیکل زدہ ڈور کسی چھری کی دھار کی طرح تیز ہوتے ہیں۔ جب ایسی ڈور کی پتنگ کٹ جائے تو وہ ڈور لامحالہ نیچے گرتی ہے جسے پتنگ باز تیزی سے کھینچتے ہیں، ایسے میں وہ نیچے اپنے راستے میں آنے والے راہگیر یا موٹرسائیکل سوار کےلیے کسی تلوار سے کم نہیں ہوتی۔
موٹر سائیکل سواروں کو پتنگ کی اس قاتل ڈور سے بچنے کے لیے بائیک کے سامنے حفاظتی لچک دار راڈ کا استعمال کرنا چاہیے۔
پتنگ بازی سے ہونے والی ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے تو پتنگ بازی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو سراہا جانا چاہیے۔ لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ترستے عوام کو ایک دلچسپ مشغلے سے محروم کرنے کے بجائے ان عوامل پر پابندی عائد کی جاتی، جس کی وجہ سے یہ مشغلہ ایک ’’قاتل کھیل‘‘ بن گیا۔ ہر کھیل کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں تو کیا پتنگ بازی کےلیے بھی حکومت کی جانب سے کچھ اصول وضع نہیں کردینے چاہیے تھے؟ پتنگ بازی پر پابندی لگانے کے بجائے اس غیر قانونی کیمیکل زدہ دھاتی ڈور پر پابندی عائد کی جانی چاہیے تھی جو ایسے حادثات کی وجہ بن رہی ہے۔ پتنگوں کےلیے سائز کی پابندی اور ڈور کا معیار مقرر کیا جانا چاہیے۔ پتنگ بازی کےلیے مخصوص جگہیں مختص کی جانی چاہئیں۔ ایسے علاقوں میں پتنگ بازی کی ممانعت کی جانی چاہیے جہاں حادثات کا خدشہ ہو۔
حکومت کے علاوہ یہ عوام کا بھی فرض ہے کہ اس مشغلے کو ایک کھیل ہی رہنے دیں، کسی کےلیے مصیبت نہ بنائیں۔ ایسا عمل نہ کیجیے جس سے کوئی حادثہ رونما ہونے کا خدشہ ہو۔ والدین بھی اپنے بچوں کو سمجھائیں اور ان پر نظر رکھیں۔ اور سب سے اہم کہ پتنگ باز ایسی ڈور کا استعمال نہ کریں جو حادثات کا باعث بنے۔