محمد علی جناح کی قائدانہ صلاحیتوں اور علامہ اقبال کے انقلابی افکار سے مزین تحریک پاکستان کا نقطہ عروج، یوم پاکستان 23 مارچ 1940، جب ایک باشعور اور زندہ دل قوم نے ہنود اور فرنگیوں کی غلامی سے چھٹکارے کا عہد کیا اور پھر چند ہی سال میں آزادی سے ہمکنار ہوگئی۔
76 سال کا یہ قومی سفر نشیب و فراز کی ایک متحیر داستان ہے۔ ایماں، تنظیم اور یقین محکم کے سنہری نصب العین سے اس نوزائیدہ ریاست کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ شاہین صفت خودی کے حامل افراد کی اس پاکستانی معاشرے میں نشوونما مقصود تھی۔ اور اس مملکت خداداد نے امت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا تھا مگر ’’ہنوز دلی دور است‘‘۔
آج ریاست پاکستان کی سلامتی کو انتہائی مہلک چیلنجز لاحق ہیں۔ یوم پاکستان کے موقع پر ہم نے اپنے عظیم اسلاف کی تابندہ روایات کے تسلسل کا عہد کرنا ہے۔ کیا سرسید خان نے اس مملکت کے قیام کےلیے تعلیمی ادارے قائم کیے تھے کہ جہاں کچے کے ڈاکو ایک صوبے اور پورے مرکز کےلیے دہشت گردی کے خطرے کا باعث ہیں۔ اور سرکاری مشینری ان کے آگے بے بس ہے۔ کیا شاہ ولی اللہ اور سید احمد شہید نے سکھوں سے جہاد اس خاطر کیا تھا کہ اس خطۂ آزاد میں طلبانیت کو عروج ملے۔ اور مذہبی جنونیت کے نام پر ملک میں نہتے شہریوں اور ریاستی اداروں کے خون سے ہولی کھیلی جائے۔
یقیناً سرسید احمد خان کا آئیڈیل معتدل تعلیم یافتہ مسلمان تھا اور شاہ ولی اللہ اور سید احمد شہید ایک پرامن اور معاشرتی برائیوں سے پاک اسلامی ریاست کے خواہاں تھے۔ اسی طرح شیر میسور ٹیپو سلطان کی جرأت اور بہادری کا عکس آج کے پاکستانی نوجوان میں مفقود ہے۔ اور ساتھ ہی سیاسی قیادت بھی اپنی روایات سے محروم ہے۔ آج کا سوشل میڈیا کا رسیا نوجوان قطعی ٹیپو سلطان کا وارث نہیں۔ آج کے پاکستانی نوجوانوں کے دل و دماغ پر مغرب کی ایجاد کردہ سوشل میڈیا ایپس کا قبضہ ہے۔
ہم تو لاثانی روایات کی حامل شخصیات کے وارث ہیں۔ ہمارا نصب العین تو حفیظ جالندھری کا تحریر کردہ قومی ترانہ ہے۔ چوہدری رحمت علی جیسی عظیم ہستی نے اس وطن کا نام تجویز کیا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں لازوال قربانیاں دینے والوں نے کرپشن، رشوت اور سفارش سے آلودہ قوم کی خاطر اپنی جانیں قربان نہیں کی تھیں۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا محمد شوکت علی جوہر کے افکار اور نظریات ایسے تو نہ تھے کہ ایک آئی ایم ایف کے آگے گروی رکھی ہوئی قوم جنم لے۔ 1947 میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے قافلوں میں سکھوں کے حملوں میں شہید ہونے والے افراد کی قربانیاں اس خاطر تو نہ تھیں کہ اس پاکستانی قوم کے وسائل کو بیرون ممالک کے بینکوں اور جائیدادوں میں جھونکا جائے اور چند کرپٹ خاندان اس ریاست پر مسلط ہوجائیں۔
آج کا 23 مارچ ہمارا قبلہ درست کرنے کا وقت ہے۔ سب سے اہم ضرورت اخلاقی پستی اور قعر مذلت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ترقی یافتہ ممالک کے روز و شب کو حیران کن حد تک تبدیل کررہی ہے اور ہمارے سیاسی ٹھگ کشکول لے کر پھر رہے ہیں۔
23 مارچ پر تمام تعلیمی ادارے، علما، اساتذہ کرام، والدین اور صحافی حضرات تحریک پاکستان کے مشاہیر کے افکار کو اس خوابیدہ اور بیمار قوم کو زندہ و جاوداں کرنے کےلیے بروئے کار لائیں۔ قوم کا اجتماعی شعور سسکیاں لے رہا ہے۔ خدارا اس زوال کو روکنے اور اسے ترقی یافتہ قوم بنانے کےلیے کمر بستہ ہوجائیں۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی