بیلفاسٹ: شمالی آئرلینڈ میں محققین کی ایک ٹیم نے اپنے تجربے میں قیمتی دھات سونے کی کچھ پوشیدہ خصوصیات کا معائنہ کیا ہے۔
بیلفاسٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں کی رہنمائی میں کام کرنے والی ٹیم نے اس قیمتی دھات اور اس کے میلٹنگ پوائنٹ (وہ درجہ حرارت جس پر سونا پگھلتا ہے) پر متعدد نئے تجربات کیے جس میں دیکھا گیا کہ یہ دھات بلند درجہ حرات پر غیر متوقع ردِ عمل ظاہر کرتی ہے۔
تجربے میں سائنس دانوں نے بلند درجہ حرارت پر سونے کو تپانے کے لیے انتہائی شدت کی شعاعوں کا استعمال کیا تاکہ جوہری سطح پر نتائج کا مشاہدہ کیا جا سکے۔
توقعات کے برخلاف دھات نے تپش کی ایک حد کے بعد پگھلنا بند کر دیا اور مزید سخت اور مضبوط شکل اختیار کرلی۔ جس کے بعد سونے کو پگھلانے کے لیے مستقل بنیادوں پر بڑھتی ہوئی مقدار میں توانائی کی ضرورت تھی۔
تجربے میں استعمال ہونے والی لیزر کا نام فیمٹو سیکنڈ لیزرز تھا جو انتہائی کم وقت (یعنی ایک فیمٹو سیکنڈ، سیکنڈ کے ہزار کھربواں حصہ) میں کام کرتی ہے۔
سائنس دانوں نے لیزر کے سبب ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے فیمٹو سیکنڈ ایکس رے پلسز کا استعمال کیا۔
یہ تجربات دنیا کی سب سے زیادہ ریزولوشن والی ایکس رے مشینوں کی مدد سے کیے گئے۔ عالمی سطح پر ایسی صرف پانچ فیسلیٹیز موجود ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ سونے کے متعلق ہونے والی یہ دریافت صنعت اور ٹیکنالوجی پر وسیع اثرات رکھتی ہے۔
ان تجربات کے بعد طبعیات دان یہ جاننے کی تیاری کر رہے ہیں کہ دیگر قیمتی دھاتیں اس صورتحال میں کس طرح ردِ عمل دے سکتی ہیں۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق تانبہ، پلیٹینم اور ایلومینیئم بالکل سونے کی طرح ردِ عمل دِکھائیں گے۔ جبکہ ٹینٹیلم (جس سے جہاز کا انجن بنانے کے لیے استعمال ہونے والے ’سپر الوائے‘ بنایا جاتا ہے) اور ٹنگسٹن (فیوژن ری ایکٹرز کی تعمیر کے لیے اہم مٹیریل) مختلف ردِ عمل دیں گے۔