بھینگے پن میں ایک آنکھ دماغ کی ایک سمت کی تصویر بنا کر دکھاتی ہے اور دوسری آنکھ اس سے مختلف تصویر بنا کر پیش کرتی ہے۔
مطلب یہ کہ دماغ پر دو مختلف تصاویر بن رہی ہوتی ہیں دماغ کو یہ بات کسی صورت قبول نہیں ہوتی۔ آنکھوں کا بھینگا پن زیادہ تر بچوں میں دیکھا جاتا ہے لیکن یہ زندگی کے کسی بھی حصے میں بھی آپ کو متاثر کرسکتا ہے۔ بڑی عمر کے بچوں یا افراد میں بھینگا پن مختلف طبی حالتوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے جیسے دماغی یا جسمانی فالج وغیرہ۔
بھینگا پن یا کراس آنکھیں کیا ہیں؟
بھینگا پن یا کراس آنکھیں جنھیں ’سٹرابزم‘ بھی کہا جاتا ہے ایک ایسی حالت ہے جس میں آپ کی آنکھیں ایک لائن پر نہیں ہوتیں۔ اس میں آنکھیں مختلف سمتوں میں نظر آتی ہیں اور ہر آنکھ مختلف چیز پر مرکوز ہوگی۔
علامات
بھینگے پن میں آنکھیں اندر یا باہر کی طرف اشارہ کرسکتی ہیں یا مختلف سمتوں میں فوکس کر سکتی ہیں، اس کے علاوہ بھینگے پن کی نشانیوں میں شامل ہیں: بصارت کی خرابی، دوہری بصارت، گہرائی کے ادراک میں کمی، آنکھوں میں درد یا سر درد۔ یہ علامات مستقل بھی ہو سکتی ہیں یا پھر صرف اس وقت ظاہر ہو سکتی ہیں جب آپ تھکے ہوئے ہوں یا ٹھیک محسوس نہ کر رہے ہوں۔
بھینگے پن کی اقسام
(1) ہائپرٹراپیا:
یہ اس وقت ہوتا ہے جب آنکھیں اوپر کی جانب مڑ جاتی ہیں۔
(2) ہائپوٹروپیا:
یہ اس وقت ہوتا ہے جب آنکھیں نیچے کی جانب مڑ جاتی ہیں۔
(3) ایسوٹروپیا:
یہ اس وقت ہوتا ہے جب آنکھیں اندر کی جانب مڑ جاتی ہیں۔
(4) ایکسوٹروپیا:
یہ اس وقت ہوتا ہے جب آنکھیں باہر کی جانب مڑ جاتی ہیں۔
بھینگے پن کی وجوہات
بھینگا پن اعصابی نقصان کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر جب آپ کی آنکھوں کے اردگرد کے پٹھے ایک ساتھ کام نہیں کرتے کیونکہ کچھ پٹھے دوسرے پٹھوں سے کمزور ہو جاتے ہیں۔ جب دماغ کو ہر ایک آنکھ سے ایک مختلف بصری پیغام ملتا ہے تو وہ آپ کی کمزور آنکھ سے آنے والے سگنلز کو نظرانداز کردیتا ہے۔ اگر آنکھوں کی حالت ٹھیک نہیں تو یہ آپ کو اندھے پن میں مبتلا کرسکتا ہے۔
بچوں میں بھینگا پن
بچوں میں بھینگا پن عام ہے۔ اکثر اس کی بنیادی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ ’انفینائل ایسوٹروپیا‘ ایک خاص قسم کا بھینگا پن ہے جو بچوں میں پہلے سال میں ظاہر ہوتا ہے۔ بعض دفعہ بھینگا پن خاندانوں میں چلتا ہے اور اسے سرجری کے ذریعے درست کیا جاتا ہے۔ یہ بھینگا پن دو سے پانچ سال کی عمر کے بچوں میں ہوتا ہے اور عام طور پر چشمے کے استعمال سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ایک قسم ’’حاصل شدہ بھینگا پن‘‘ کی ہوتی ہے۔ اس میں بچے عموماً کسی کی نقل میں آنکھوں کو ٹیڑھا کرکے دیکھتے ہیں۔ یہ دو سے پانچ سال کی عمر میں ہوتا ہے لیکن یہ چشمہ کے مستقل استعمال سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔
طبی حالت
بھینگا پن زندگی کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے۔ یہ عام طور پر جسمانی عوارض کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مثلاً آنکھ پر چوٹ لگنا، دماغی فالج، جسمانی فالج وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو آنکھیں دی ہیں۔ جب ہم کسی چیز کی طرف دیکھتے ہیں تو دونوں آنکھیں خودبخود اس چیز کی طرف مڑ جاتی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ان دونوں آنکھوں کی coordination خراب ہو جائے تو بھینگے پن کی بیماری سامنے آتی ہے۔ توازن خراب ہونے کی عموماً درج ذیل تین وجوہات میں سے کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے:
(1) دماغ دونوں آنکھوں کی حرکات کے توازن کو برقرار نہ رکھ پائے۔
(2) ایک آنکھ کی کارکردگی کسی وجہ سے ناقص ہو
جائے۔ مثال کے طور پر سفید موتیا سے، پردے کی خرابی سے، ایک آنکھ کی نظر قدرتی طور پر دوسری کے مقابلے میں بہت زیادہ کمزور ہو وغیرہ۔
(3) آنکھوں کی حرکات کو کنٹرول کرنے والے 12 عضلات میں سے کوئی ایک یا زیادہ عضلات بیمار ہو جائیں اور پوری طرح کام نہ کرتے ہوں
مثلاً کسی عضوکو فالج ہو جائے، کسی عضو کی نشوونما ناقص ہوگئی ہو، کسی عضو کے چوٹ آجائے۔
بھینگے پن کے نقصانات
بہت دفعہ بھینگا پن نفسیاتی الجھنوں کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ چہرہ بدنما ہو جاتا ہے۔ جن بچوں میں عضلات کا فالج اس کی وجہ ہوتا ہے ان میں لاشعوری طور پر سر اور چہرہ ابنارمل پوزیشن اختیار کرسکتا ہے۔ اسی پوزیشن سے گردن کے مہرے عمر بھر کے لیے خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ سردرد، چکر آنا، پڑھتے ہوئے الفاظ کا حرکت کرنا شروع کردینا، اس مرض کی عام علامات ہیں۔ ان کی موجودگی بچوں کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔ بچوں کا پڑھائی سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے۔ لوگ کام سے جی چرانے لگتے ہیں جس کی انھیں وجہ بھی سمجھ نہیں آتی۔
زیادہ تر مریضوں میں اس کا علاج ممکن ہوتا ہے۔ علاج کا تعلق نقص سے ہوتا ہے۔ اگر آنکھوں کی کارکردگی ناقص ہے اور کسی طریقے سے اس کے کام کرنے کی صلاحیت کو بہتر کیا جاسکے تو اس سے بھینگا پن ٹھیک ہو جائے گا۔ مثلاً سفید موتیا کا آپریشن کردیا جائے۔ اگر عینک کی ضرورت ہو تو عینک کا استعمال شروع کردے تو اس سے آہستہ آہستہ ٹیڑھا پن ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس طرح اگر عضلات فالج کا شکار ہو گئے ہوں یا پیدائشی طور پر کمزور ہوں اس کی کارکردگی کو اکثر اوقات بہتر کرنا ممکن ہوتا ہے۔