انڈیانا: ہر سال لاکھوں ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندر میں داخل ہوتا ہے، سورج کی الٹرا وائلٹ روشنی اور سمندر کی بپھری ہوئی کیفیت اس پلاسٹک کو ناقابلِ دید نینو ذرات میں بدل دیتی ہے جس کے سبب سمندری ماحول کو خطرات لاحق ہیں۔
ایک نئی تحقیق میں انجینئروں نے چین، جنوبی کوریا، امریکا اور خلیجِ میکسیکو کے ساحلوں پر نینو پلاسٹک کی صاف تصاویر پیش کی ہیں۔ پلاسٹک کے یہ باریک ذرات (جو پانی کی بوتلوں، غذاؤں کی پیکجنگ اور کپڑوں کے سبب وجود میں آتے ہیں) ساخت اور کیمیائی مرکبات کے اعتبار سے حیران کن حد تک تنوع رکھتے ہیں۔
یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے تعلق رکھنے والے ایرو اسپیس اور مکینیکل انجینئرنگ کے پروفیسر ٹینگفائی لو کا کہنا تھا کہ نینو پلاسٹک، پلاسٹک کے بڑے ذرات سے زیادہ زہریلے اثرات رکھتے ہیں، ان کا چھوٹا سائز انہیں حیاتیات کے بافتوں میں داخل ہونے کی صلاحیت دیتا ہے۔
اس سے قبل سائنس دانوں کی جانب سے تجربہ گاہوں میں بنائے جانے والے نینو پلاسٹک ذرات کا استعمال کرتے ہوئے آبی حیات پر ان کے زہریلے اثرات کو پرکھنے کے لیے مطالعہ کیا گیا تھا۔
ٹینگفائی لو کی ٹیم نے ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں وئی ژو کی ٹیم کے ساتھ ملک کر دنیا بھر کے سمندروں میں حقیقی نینو پلاسٹک کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا، سائنس دانوں کو اس بات کا شبہ تھا کہ سمندروں میں ملنے والے یہ ذرات لیب میں بنائے جانے والے ذرات سے مختلف ہوسکتے ہیں۔
نینو پلاسٹک کے متعلق خیال کیا جاتا ہے یہ سمندر میں انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ سمندر میں ان کی تلاش میں ٹینگفائی کی ٹیم نے بلبلوں کی ایک مخصوص تکنیک کا استعمال کیا جس انہوں نے کینسر کی جلدی تشخیص کے لیے ڈی این اے کی تلاش کے لیے بنائی گئی تھی۔